• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور واقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے، چیف جسٹس

لاہور واقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے، چیف جسٹس


چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ لاہور واقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اس پر زیادہ بات نہیں کرسکتا۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ڈاکٹرز اور وکیل دونوں ہی معاشرے کے باوقار پیشے ہیں اور دونوں پیشوں کے ساتھ گران قدر روایات منسلک ہیں۔

پاکستانی میں عدالتی نظام پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ عرصے پہلے تک ہم پر سب سے بڑی تہمت ہی یہ تھی کہ ٹرائل کورٹ کا سسٹم انتقال کر چکا ہے، ہم نے ماڈل کورٹس کے ذریعے تیز تر انصاف کو یقینی بنایا ۔

انہوں نے کہا کہ ماڈل کورٹس نے شاندارکارکردگی کامظاہرہ کیا، اب ہمارے پاس درخواستیں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ کیس ماڈل کورٹ میں منتقل کیا جائے، تبدیلی وہی لوگ لاتے ہيں جو رسک لینے کو تیار ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نظام میں رہتے ہوئے انصاف میں تاخیر کے عمل کو مختصر کیا، ماڈل کورٹس کو کامیاب بنانے میں وکلا اور ججز کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اپنی حالت خود بدلنے کا ہم نے ارادہ کیا اور نظام عدل میں تاخیر کے اسباب کی نشاندہی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ انگلینڈ میں کیس کی تاریخ ڈیڑھ سال کے لیے دی جاتی ہے، جب کیس کی تاریخ آجاتی ہے پھر صرف وہی کیس سنا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گواہوں کو پیش کرنے کی ذمے داری ریاست کی ہوتی ہے، ہم نےکہا کہ مدعی کے بجائے پولیس اور ریاست گواہ پیش کرے گی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے فیصلے کے بعد ججمنٹ لکھنے میں وقت لگتا تھا، سینئر وکلا کے پاس ہی تمام ٹرائل اور دوسرے مقدمات ہوتےہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سسٹم کے اندر رہ کر ہی کام کیا، ہم نے امید نہیں چھوڑی، اگر ہم کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو کام ہو جاتا ہے اور ہم نےکہا کہ سپریم کورٹ میں کوئی کیس زیر التوا نہیں ہوگا جبکہ ماڈل کورٹس کے لیے ہم نے مزید کوئی پیسا نہیں مانگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستی مقدمات میں ریاست کو کیس کی آنرشپ لینی چاہیے، دوسری بنیادی چیز جس کو ہم نے فوکس کیا وہ اسٹیٹ کیسز ہیں اور اب جو مقدمہ آتا ہے فوری فیصلہ ہوجاتا ہے۔

تازہ ترین