اسلام آباد (نمائندہ جنگ) پاک فوج نے گرفتار بھارتی ’را‘ ایجنٹ کل بھوشن یادیو کا ویڈیو اعترافی بیان میڈیا کے سامنے جاری کردیا جس سے پاکستان میں بھارتی مداخلت بے نقاب ہوگئی ہے اور بھارتی جاسوس پاکستان میں اپنی دہشت گرد سرگرمیوں کے حوالے سےبول پڑا ، کل بھوشن یادیو نے اعتراف کیا کہ گوادر اور کراچی ’را‘ کے اہم ٹارگٹ ہیں ، اب بھی بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہوں، کراچی میں بھی بہت سی کارروائیاں کیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی میں بھارتی مداخلت ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے ، ’را‘ ایجنٹ دہشت گردوں کو فنڈنگ اور ہتھیار پہنچاتا رہا، انسانی اسمگلنگ کیساتھ ساتھ گوادر ہوٹل میں دھماکا کیا ، کراچی میں مہر ان بیس اور چوہدری اسلم پر حملوں میں بھی ملوث ہے، بھارت پاک چین اقتصادی راہداری سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ، بھارتی جاسوس کا معاملہ ایرانی صدر سے بھی اُٹھایا، اس مسئلہ کو اقوام متحدہ سے لیکر ہر عالمی فورم پر اٹھائیں گے ، بھارتی ایجنٹ کے معاملے سے قانونی طریقے سے نمٹیں گے ، عالمی برداری آگے آئے اور پاکستان کا ساتھ دے ۔ تفصیلات کے مطابق منگل کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید اور پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے 3؍ مارچ کو پاکستان سے گرفتار ہونیوالے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کے بارے میں حقائق کو منظر عام پر لانےکے حوالے سے اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کی ، پریس کانفرنس کے دوران بھارتی ’را ‘ ایجنٹ کی اعترافی ویڈیو بھی دکھائی گئی ، پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی میں بھارتی مداخلت ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے ، بھارتی ’را‘ ایجنٹ کل بھوشن یادیوسے اب تک کی تحقیقات کے بعد بہت سی معلومات کا پتہ چلا ہے ، کل بھوشن یادیو بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے جو لیفٹیننٹ کرنل کے برابر ہے اور اس کا بھارتی ایجنسی را میں تبادلہ کر دیا گیا اور پھر اس کو پاکستان کا مشن دیاگیا ، یہ بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ، انڈین ’را‘ کے چیف اور سیکرٹری انیل کمار گپتا کو رپورٹ کرتا تھا ، انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں ایسا بہت کم ہوا کہ کسی ملک کا انٹیلی جنس افسر کسی دوسرے ملک میں جاسوسی کرتے پکڑا جائے ، یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے اورجس کا کریڈیٹ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو جاتا ہے ، آئی ایس آئی دنیا کی بہتری انٹیلی جنس ایجنسی ہے ، کل بھوشن یادیو کو بلوچستان اور کراچی میں کارروائیاں کرنے کا ٹاسک دیا گیا ، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ کل بھوشن یادیو مسلمان بن گیا اور بلوچستان میں اسکریپ کا ڈیلر بن گیا اس نے اسکریپ بھی خریدا ، پھر ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں جیولری کا کاروبار بھی کرتا تھااور وہاں اس کا ایک پارٹنر بھی تھا ، پارٹنر نے اسکو پاک ایران سرحد پر چھوڑا ، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں را کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جو خاص طور پر بلوچستان اور کراچی میں کام کررہا ہے ، بھارتی جاسوس کے پاس امریکی ، ایرانی اور پاکستانی کرنسی تھی اور اس کے پاس پاکستان کے نقشے اور بلوچستان کے بڑے نقشے تھے ،کل بھوشن یادیو نے اپنا کوڈ بھی بتایا اور کہا کہ اگر یہ کوڈ بھارت کو بتایا جائے تو ان کو پتہ چل جائےگا کہ کون گرفتار ہو ا ہے ، وہ کو ڈ یہ ہے آپ کا بندر ہمارے پاس ہے ۔( your monkey is with us)ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ بھارتی را ایجنٹ دہشتگردوں کو فنڈنگ اور ہتھیار پہنچاتا تھا اور انسانی اسمگلنگ میں بھی ملوث تھا اس کو گوادر ہوٹل میں دھماکا کا ٹاسک دیا گیا اور اس نے ہوٹل میں دھماکا کیا مہران بیس حملے ، کراچی میں ایس ایس پی چوہدری اسلم کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث ہے، اس کے علاوہ کراچی میں فرقہ وارانہ کارروائیاں ، بلوچستان میں گیس پائپ لائنوں کو اڑانا ، بلوچ تنظیم کے ساتھ مل کر علیحدگی پسندی کو ہوا دینا سمیت دیگر بہت سے امور اس کے دائرہ کار میں شامل تھے ،انہوں نے کہا کہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جو دھماکے ہو رہے ہیں آنے والے دنوں میں ان کے حقائق بھی سامنے آجائیںگئے کہ ان میں کون ملوث ہے ، لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ مستقبل میں بہت سے منصوبوں پر اس نے عمل کرنا تھا جن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کو تہہ و بالا کرنے کے لیے گوادر کی بندرگاہ کو نشانہ بنانا تھا ، گوادربندرگا ہ اس کا ہدف تھا ، اس کے علاوہ پسنی ، جیوانی اور ساحل سمندر کے ذریعے 30سے 40ـ’را‘ کے ایجنڈوں کو پاکستان میں داخل کرنا تھا ،سوالوں کے جوابات میں انہوں نے بتایا کہ کل بھوشن یادیوبھارتی ’را‘ کا حاضر سروس افسر ہےاس بارے میں ہمارے پاس بہت سے ثبوت موجود ہیں اگر بھارت اس کو مسترد کرتا ہے تو اس سے اور کیا توقع رکھی جاسکتی ہے انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ ایرانی صدر سے بھی اٹھایا گیا ، اور انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایرانی سرزمین استعمال نہیں کرنے دی جائیگی، ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا ہے اور ان سے مسلسل رابطے میں ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارتی را کے ایجنٹ کےمعاملے کو قانونی اور دیگر تمام طریقوں سے دیکھا جائے گا اور پاکستان کے قانون کے تحت نمٹا جائے گا ، پاکستان نے یہ معاملہ دفتر خارجہ کے ذریعے بھی بھارت کے ساتھ اٹھایا ہے اور بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کیا گیا ، انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو اقوام متحدہ سے لیکر ہر فورم پر اٹھائیں گے ، یہ ہماری زندگیوں کا معاملہ ہے ، ہماری بین الاقوامی برادری سے اپیل ہے کہ وہ آگے آئیں اور پاکستان کا ساتھ دیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ’را‘ ایجنٹ کی گرفتاری پر حکومت پاکستان نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے اور دنیا کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق بھارت کو پاکستان کی سرزمین سے جاسوس کی گرفتاری سے متعلق آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اپنی قومی ذمہ داریاں جانتے ہیں جو طویل عرصے سے پاکستان کے لئے ذمہ داریاں نبھاتے آئے ہیں ابھی معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں جسے عدالت میں پیش کیا جائے گا اور عدالت ہی اس کیس کا فیصلہ کرے گی۔ ادھر کل بھوشن یادیو نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر ہے اور وہ بھارتی ایجنسی را کے لیے کام کر رہا تھا بھارت کے جاسوس کل بھوشن یادو نے بتایا کہ اس نے 1991ء میں بھارتی بحریہ میں شمولیت اختیار کی۔’میں اب بھی بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہوں اور میری ریٹائرمنٹ 2022ء میں ہونی ہے۔ ‘ اس نے بتایا کہ بھارت میں دسمبر 2001ء میں پارلیمنٹ پر حملے کے بعد خفیہ انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے خدمات دینا شروع کیں۔ ’2003ء میں، میں نے ایران کے علاقے چاہ بہار میں ایک چھوٹا سا بزنس شروع کیا۔‘ اس کا کہنا تھا کہ وہ 2003ء اور 2004ء میں کراچی کے خفیہ دورے کرنے میں کامیاب ہوا۔ چھ منٹ کے دورانیے پر مشتمل ویڈیو میں کل بھوشن یادیو نے بتایا کہ اس نے 2013ء میں را کے لیے کام شروع کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کراچی اور بلوچستان میں را کی جانب سے بہت سی کارروائیاں کرتا رہا ہے اور وہاں کے حالات کو خراب کرتا رہا۔ ’میں را کے جوائنٹ سیکرٹری انیل کمار گپتا کے لیے اور ان کے پاکستان میں موجود رابطہ کاروں کے لیے خاص طور پر بلوچ طلبہ تنظیموں کے ساتھ کام کرتا تھا۔‘ کل بھوشن یادو کے مطابق اس عرصے میں اسے معلوم ہوا کہ را پاکستان اور اردگرد کے خطے میں بلوچ آزادی کی تحریک کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔یہ کارروائیاں مجرمانہ اور قومیت کیخلاف اور پاکستانیوں کو ہلاک کرنے پر مشتمل تھیں۔ اس نے بتایا کہ تین مارچ کو پاکستانی حکام نے اسے اس وقت گرفتار کیا جب وہ ایران سے پاکستان داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا مقصد پاکستان میں داخل ہو کر بی ایس این کے اہلکاروں سے ملاقات کرنا تھی جو آنے والے دنوں میں بلوچستان میں کوئی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔