• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدر کے تاریخی میدان میں خیر وشر کی دو قوّتیں مدّ ِمقابل ہوئیں۔ ایک طرف اسلامی انقلاب کے علم بردار، اللہ اور اُس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے پرستار تھے، تو دوسری طرف، شرک و کُفر کے پیرو کار۔ غزوۂ بدر اسلامی تاریخ کا وہ عظیم الشّان اور تاریخ ساز معرکہ ہے، جس نے تاریخِ انسانی بدل ڈالی۔اس معرکے میں پہلی بار اسلام کی کفر کے ساتھ، حق کی باطل کے ساتھ، نور کی ظلمت کے ساتھ، ایمان کی منافقت کے ساتھ، علم کی جہالت کے ساتھ، مومن کی مشرک کے ساتھ، مظلوم کی ظالم کے ساتھ جنگ ہوئی، جس نے قدیم، فرسودہ اور جاہلانہ نظام سے بیزار دنیا کو اور ظلم سے پِسے ہوئے مجبور و مقہور افراد کو کلمۂ حق کہنے کی قوّت عطا کی۔ 

شرک و جہالت، ظلم و استبداد کی تاریکیوں کو توحید کی روشنی اور رسالتؐ کی ضیاء پاشیوں سے منوّر کیا۔ اہلِ زمین کی قدریں بدل گئیں اور شعور کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا۔یہ جزیرۃ العرب کی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ جب غرور و تکبّر میں مست طاغوتی قوّتیں متحد ہو کر اسلام کی ناقابلِ تسخیر ایمانی چٹانوں سے ٹکرا کر یوں بکھر گئیں کہ جیسے بپھرے سمندر کی بے تاب موجیں ساحل کی چٹانوں سے ٹکرا کر خاموشی سے پارہ پارہ ہو جاتی ہیں۔معبودِ برحق نے چودہ برس تک قتال کی اجازت نہ دی، نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نفرتوں کے جواب میں محبّتیں بانٹتے رہے، تشدّد اور اذیّتوں کے جواب میں صبر و تحمّل کا درس فرماتے رہے، رعونت و تکبّر کا جواب عاجزی و انکساری سے دیتے رہے، جنگ کی بجائے امن کا پرچار کرتے رہے، لیکن جب دل سیاہ اور عقل کند ہو چُکی ہو۔ شعور سو جائے، ضمیر مُردہ ہوچُکا ہو۔ ظلم و زیادتی عادت بن جائے۔ 

سوچ بچار پر پہرے ہوں، پیار کی بات سمجھ آئے اور نہ ہی واضح دلائل سے دماغ روشن ہوں، تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دِلوں پر مُہر لگا دیتا ہے اور تباہی اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔ آج ایک بار پھر ملّتِ اسلامیہ نہایت تاریک دَور سے گزر رہی ہے۔ دنیا کے50 سے زاید ممالک کے ڈھائی ارب مسلمان ذلّت و رسوائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب ہماری بد عملیوں ہی کی سزا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کریں۔ قرآنِ پاک تلاوت کے ساتھ ساتھ، عمل کی بھی کتاب ہے، لہٰذا اسے ترجمے کے ساتھ پڑھیں۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیّبہ کا مطالعہ کریں، پھر فرشتوں کے ذریعے غیبی مدد کا وعدہ کبھی بھی اور کہیں بھی پورا ہو سکتا ہے۔اقبال نے سچ کہا؎ فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو…اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی۔قرآنِ کریم نے اس انقلاب آفریں اور تاریخ ساز غزوے کے دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی آٹھویں سورت’’سورۃ الانفال ‘‘ میں غزوۂ بدر کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا ہے، جس میں جنگ کے اسباب، واقعات، نصرتِ الٰہی، احسانات و انعامات کے ساتھ ہدایات اور تنبیہات کا بھی ذکر ہے۔

ابو لہب کی عبرت ناک موت

ابو لہب کا اصل نام عبد العزیٰ بن عبدالمطلب اور کُنیت ابو عتبہ تھی۔ اپنے حُسن و جمال اور سُرخ چمکتے چہرے کی وجہ سے ابولہب یعنی’’ شعلۂ فروزاں‘‘ کہلاتا تھا۔ ویسے بھی اپنے انجام کے اعتبار سے اُسے جہنّم کی آگ کا ایندھن بننا تھا، اِس لیے قرآنِ کریم نے بھی اُسے اُس کے اصلی نام کی بجائے لہب، یعنی ’’شعلے‘‘ ہی سے پکارا ہے۔ قرآن پاک کے تیسویں پارے کی ’’سورۂ لہب ‘‘ میں اُس کے اور اُس کی بیوی، اُمّ ِ جمیل بنتِ عرب کے لیے سخت ترین سزا کی وعید ہے۔ یہ شخص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا اور پڑوسی بھی۔

اسلام سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتے داری پر فخر کرتا تھا، یہاں تک کہ اپنے دو بیٹوں، عتبہ اور عتیبہ کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحب زادیوں، حضرت رقیہؓ اور حضرت اُمّ ِ کلثوم ؓ سے کیا، لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی، بعد میں اُس نے دونوں بیٹوں سے زبردستی طلاق دلوا دی۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کا پیاسا ہو گیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جاں نثاروں پر سب سے زیادہ تشدّد ابو لہب اور اُس کی بیوی نے کیا۔ابو لہب اپنی بیماری یا کسی اور وجہ سے غزوۂ بدر میں شریک نہ ہو سکا تھا۔ 

اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ قریش کے نام وَر اور تجربے کار جنگ جُو لڑائی سے ناآشنا انصار اور مُٹھی بھر مہاجرین سے ایسی عبرت ناک شکست کھائیں گے کہ عربوں کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ اس شرم ناک شکست کا صدمہ اُس کی برداشت سے باہر تھا۔ اُس نے ابو سفیان کے ذریعے اعلان کروا دیا کہ کسی بھی گھر سے رونے پیٹنے یا ماتم کی آواز نہ آئے۔ پورے جزیرۂ عرب میں قریش کی اس بدترین شکست سے ہونے والی بدنامی و بے عزّتی کو ابولہب برداشت نہ کر سکا۔ انتقام کے شعلوں نے اُس کے جسم میں طاعون کی گٹھلیوں کی شکل اختیار کر لی، جس سے اُٹھنے والی شدید بدبُو کے باعث سب نے اُسے تنہا کر دیا۔ بدر کی جنگ کو سات روز ہی ہوئے تھے کہ اسلام کا یہ دشمن اپنے انجام کو پہنچا۔ 

اُس کی بدبو دار لاش تین دن تک اُسی جگہ پڑی سڑتی رہی۔ بیٹوں اور عزیزوں میں سے کوئی بھی قریب جانے کو تیار نہ تھا کہ کہیں بیماری اُنہیں نہ لگ جائے۔ جب علاقے میں تعفّن پھیل گیا، تو لوگوں نے اُس کے بیٹوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا، جس پر اُنھوں نے چند حبشی مزدوروں سے اُجرت پر ایک گہرا گڑھا کھدوایا اور اُس میں لاش ڈال کر گڑھا بند کروا دیا۔

نبی کریمﷺ کو شہید کرنے کی سازش

غزوۂ بدر میں قریش کی ذلّت آمیز اور عبرت ناک شکست تاریخ کا ایسا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے کہ جو ایک طرف عرب سمیت پوری دنیا میں دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کا باعث بنا، تو دوسری طرف، وہ اہلِ مکّہ کے لیے ایک ایسا وحشت ناک اور بھیانک خواب تھا کہ جس نے اُن کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون برباد کر دیا۔ اُن کا غرور و تکبّر بدر کے ریتیلے میدان اور اندھے کنویں میں دفن ہو چُکا تھا اور وہ بھی مدینے کے اُن کاشت کاروں کے ہاتھوں، جو جنگ کے نام تک سے ناآشنا تھے۔ 

یہ قریش کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ اس شکست نے مکّے کے ہر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا، لیکن ابو سفیان کے خوف سے کوئی آنسو بہا سکتا تھا اور نہ اپنوں کی موت پر بین کر سکتا کہ یہ قریش کی شان کے منافی تھا۔ ابو سفیان نے قسم کھائی کہ مسلمانوں سے اس شکست کا جلد بدلہ لیا جائے گا۔ مکّے کے ماحول میں ویرانی کا راج تھا۔ بازار اجڑے، گلیاں سنسان اور محلّے قبرستان کی طرح خاموش تھے۔ خانۂ کعبہ کے صحن کی رونقیں ختم ہو چُکی تھیں۔ ابوجہل کا جلال، عتبہ بن ربیعہ کا رُعب، ابو لہب کی دہشت، امیّہ بن خلف کا خوف، عقبہ بن محیط کی ایذا رسانی، سہیل بن عمرو کے بے ہودہ اشعار سب قصّۂ پارینہ ہو چُکے تھے۔ 

اب شرابوں کے جام تھے اور نہ رقص و سرود کی محفلیں۔ شعر و شاعری کی چوپالیں تھیں، نہ بے فکروں کے بلند و بالا قہقہے۔ ہر جانب الم و یاس کے دبیز سائے تھے۔ ایسے میں قریش کے دو جوان حطیم کے اندر بیٹھے بدر کے مقتولین کو یاد کر رہے تھے۔ اُن میں سے ایک بدر کے میدان کا بھگوڑا، عمیر بن وہب تھا، جس کا بیٹا بدر کے قیدیوں میں شامل تھا، جب کہ دوسرا صفوان بن اُمیہ تھا، جس کا باپ اور بھائی دونوں بدر میں مارےگئے تھے۔ صفوان نے عمیر سے کہا ’’اب دنیا میں جینے کا کوئی مزا نہیں۔‘‘ عمیر نے کہا ’’تم سچ کہتے ہو، مجھ پر اگر قرض کا بوجھ اور اہل وعیّال کی ذمّے داری نہ ہوتی تو مَیں مدینے جاتا اور محمدﷺ کو (نعوذ باللہ) قتل کر آتا، جس نے ہمیں اِس حال پر پہنچایا ہے۔‘‘ صفوان نے جلدی سے کہا’’ عمیر! تم اپنے قرض اور اہل و عیّال کی فکر نہ کرو۔ ان کی ذمّے داری مَیں لیتا ہوں۔ 

تم بس فوراً جانے کی تیاری کرو۔ جتنی جلد یہ کام کردو گے، ہماری قوم کے لیے بہتر ہوگا۔‘‘ پھر دونوں نے کام کی تکمیل تک اِس بات کو راز میں رکھنے کی قسم کھائی۔ عمیر گھر آیا، تلوار پر دھار لگا کر زہر میں بجھایا اور نہایت راز داری کے ساتھ رات کی تاریکی میں مدینے کی جانب روانہ ہو گیا۔ اُس کے ذہن میں تھا کہ مسجد میں داخل ہوتے ہی زہر میں بجھی تلوار سے وارکردے گا۔ اُس کے بعد نہایت تیز رفتاری سے، دن رات سفر کرتے ہوئے مسجدِ نبویؐ کے دروازے کے پاس پہنچا۔ اپنی اونٹنی کو بٹھا ہی رہا تھا کہ اچانک حضرت عُمرؓ بن خطاب کی نظر اُس پر پڑی۔ آپؓ مسجد سے باہر ایک کونے میں چند اصحاب کے ساتھ محوِ گفتگو تھے۔ وہ عمیر سے بخُوبی واقف تھے۔ جب اُسے تلوار سمیت دیکھا، تو اُنہیں شبہ ہوا کہ یہ کسی بُری نیّت سے تو نہیں آیا؟ 

چناں چہ آپؓ برق رفتاری سے اُس پر جھپٹے اور گلے سے پکڑ کر مسجد کے اندر آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ آپؐ اور اللہ کا دشمن عمیر بن وہب ہے، جو تلوار حمائل کیے ہوئے ہے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’ عُمرؓ !اسے چھوڑ دو۔‘‘ پھر اُسے اپنے قریب بُلا کر فرمایا’’ عمیر! کیسے آنا ہوا؟‘‘ عمیر آپ ﷺکو سامنے دیکھ کر بہت خوف زدہ ہوچُکا تھا، جلدی سے بولا’’ میرا بیٹا آپؐ کی قید میں ہے، اُسے چھوڑنے کی درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں۔‘‘ نبیٔ رحمتﷺ نے فرمایا’’ مگر یہ تلوار کیوں حمائل کیے ہوئے ہو ؟‘‘ بولا’’ تلواریں تو بدر میں بھی ہمارے کسی کام نہ آئیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’ عمیر سچ سچ بتائو، کس مقصد سے آئے ہو؟‘‘ عاجزی سے بولا’’ صرف بیٹے کی آزادی کی التجا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ کیا تم نے اور صفوان نے حطیم میں بیٹھ کر میرے قتل کی منصوبہ بندی نہیں کی؟‘‘ پھر آپﷺ نے اُن دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیل بیان فرمائی۔آنحضرتﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ سب سُن کر عمیر حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گیا، کیوں کہ یہ بات تو صیغۂ راز میں تھی۔ 

گھبرا کر بولا’’ یہ سب آپؐ کو کیسے پتا؟‘‘ آپﷺ نےفرمایا’’ میرے اللہ نےمجھے بتایا ہے۔‘‘ یہ سُن کر عمیر بن وہب نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ مخاطب ہوا’’ اے اللہ کے سچّے رسولؐ! مَیں آپؐ پر ایمان لاتا ہوں۔‘‘ پھر وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ (یہ وہی عمیر بن وہب جمعی ہے، جو بدر کے میدان میں کفّارِ مکّہ کی جانب سے سب سے پہلے اُترا تھا اور حضرت عُمرؓ کے آزاد کردہ غلام، حضرت مہجعؓ کو شہید کیا تھا)۔ رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو عمیر کی دینی تعلیم اور بیٹے کو اُس کے حوالے کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اُدھر صفوان لوگوں سے کہتا پِھر رہا تھا کہ’’ تم بہت جلد اتنی بڑی خوش خبری سُننے والے ہو کہ بدر کا غم بھول جائو گے۔‘‘ اُس کے ساتھ ہی وہ مدینے سے آنے والے ہر شخص سے عمیر کے بارے میں پوچھتا۔ ایک دن کسی نے اُسے بتایا کہ وہ تو مسلمان ہو چُکا ہے۔ یہ سُن کر صفوان نے قسم کھائی کہ وہ عمیر سے کبھی بات نہیں کرے گا۔حضرت عمیرؓ اپنی تعلیم مکمل کر کے بیٹے کے ساتھ مکّے آگئے اور دونوں باپ بیٹے نے اسلام کی تبلیغ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔

غزوۂ سویق… ذی الحجہ 2ہجری

بدر کی جنگ میں تمام اہم سردار واصلِ جہنّم ہو چُکے تھے، چناں چہ اہلِ قریش نے ابو سفیان بن حرب کو اپنا رئیس منتخب کر لیا۔ اُس نے منصب سنبھالنے کے بعد قسم کھائی کہ جب تک مقتولینِ بدر کا انتقام نہیں لے گا، سَر میں تیل ڈالےگا اور نہ ہی غسلِ جنابت کرے گا۔ اُسے علم تھا کہ دن کی روشنی میں مدینے پرحملہ کرنا اپنی موت کو دعوت دینےکے مترادف ہے۔ دو ماہ کا عرصہ گزر چُکا تھا، اُسے اپنی قسم کی فکر تھی، لہٰذا اُس نے شب خون مارنے کا فیصلہ کیا۔ 

ایک صبح دو سو شتر سواروں کے ساتھ مدینہ روانہ ہوا اور مدینے سے بارہ میل پہلے وادیٔ مناہ کے سرے پر نیب نامی ایک پہاڑی کے دامن میں پڑائو ڈالا۔ جب اندھیرا ہوا، تو وہ مدینے کے نواح میں قبیلہ بنی نضیر کے سردار، حیی بن اخطب کے مکان پر پہنچا۔ اُسے یقین تھا کہ یہودی اُس کا ساتھ دیں گے، لیکن حیی کو جب ابو سفیان کے آنے کی خبر ملی، تو اُس نے دروازہ نہیں کھولا۔ یہاں سے مایوس ہو کر سلام بن مشکم کے پاس آیا۔ یہ بھی بنو نضیر کا رئیس اور خزانچی تھا۔ اُس نے پُرجوش انداز میں استقبال کیا، بہترین کھانوں، عمدہ شراب سے تواضع کی اور اُسے مدینے کے حالات بتائے۔ ابو سفیان صبح سے پہلے ساتھیوں میں واپس آگیا۔ 

صبح ہوتے ہی اُس نے جنگ جوئوں کا ایک دستہ لیا اور مدینے سے تین میل پہلے’’عریض ‘‘ کے مقام پر پہنچ کر لُوٹ مار جیسی کارروائی کی۔ چند مکانات، گھاس پھونس کو آگ لگائی، کھجور کے درختوں کو کاٹا، کھیتی باڑی کو اجاڑا، وہاں موجود ایک انصاری، سعدؓ بن عمرو کو شہید کیا۔ ان باتوں سے اُس کے نزدیک قسم پوری ہو گئی۔ آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی، تو آپﷺ نے دو سو صحابہ کرامؓ کے ساتھ اُس کا تعاقب کیا۔ ابو سفیان کے پاس رسد کے سامان میں صرف ستّو تھے۔ گھبراہٹ میں ستّو کے بورے راستےمیں پھینکتا تیزی سے مکّے کی جانب بھاگ نکلا۔ مسلمانوں نے ستّو کے وہ بورے جمع کر لیے۔ عربی میں ستّو کو’’ سویق‘‘ کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہ واقعہ’’ غزوۂ سویق‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

تازہ ترین