• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف کس کس کو اپنے ساتھ شریک جرم بنا رہے تھے؟

اسلام آباد (انصار عباسی) جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور موجوہ وزیر قانون فروغ نسیم کی زیر قیادت ان کی قانونی ٹیم تقریباً پوری سیاسی اور دفاعی فورسز کی قیادت، کئی ججوں اور ساتھ ہی 2007ء کی سویلین بیوروکریسی کے گریڈ 20؍ اور اس سے زیادہ کے افسران کو اپنا ساتھی قرار دے کر اس کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی تھی تاکہ پرویز مشرف کو بچایا جا سکے لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ آئین منسوخ کرنے پر سابق آمر کا تنہا ٹرائل کیا جائے۔ 

یہ ثابت کرنے کیلئے کہ 3؍ نومبر 2007ء کا اقدام مشاورتی عمل کا نتیجہ تھا، فروغ نسیم نے 3؍ نومبر 2007ء کے ایمرجنسی کے نفاذ کے آرڈر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جن لوگوں کا نام اس آرڈر میں شامل ہے وہ فیصلہ سازی کے عمل میں شامل تھے جس کے بعد ہی تین نومبر کا ایکشن کیا گیا تھا، اس لئے ان تمام افراد کو بھی مشرف کے ساتھی کے طور پر بطور شریک ملزم قرار دیا جائے۔ 

مشرف نے ہزاروں لوگوں بشمول اس وقت کے وزیراعظم اور ان کی کابینہ، تمام وزرائے اعلیٰ، گورنرز، تمام صوبائی کابینہ کے ارکان، آرمی چیف، کور کمانڈرز، پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے تمام ججز، سویلین بیوروکریسی کے گریڈ 20؍ اور اس سے زیادہ کے تمام افسران وغیرہ کو اس کیس میں گھسیٹنا چاہتے تھے۔ 

مشرف نے اپنے وکیل کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ درج ذیل افراد نے 3؍ نومبر کے ایکشن میں مدد، معاونت، سہولت فراہم کی، سازش میں حصہ لیا اور شراکت داری کی:… 

1) اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز جن کے متعلق مشرف کا اصرار تھا کہ انہوں نے 3؍ نومبر 2007ء کا خط لکھ کر جنرل (ر) پرویز مشرف کو مذکورہ ایمرجنسی کے نفاذ کی دعوت دی۔ 

2) تین نومبر 2007ء؍ کو کابینہ کے تمام ارکان۔ 

3) 6؍ نومبر 2007ء کی قومی اسمبلی کے ارکان۔ 

4) تین نومبر 2007ء کو چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے ارکان۔ 

5) تین نومبر 2007ء کو موجود چاروں صوبائی گورنرز۔ 

6) تین نومبر 2007ء کو موجود تمام سروسز چیفس۔ 

7) تین نومبر 2007ء کو موجود تمام کور کمانڈرز۔ 

8) تین نومبر 2007ء کو موجود مسلح افواج کے تمام سینئر ارکان۔ 

9) 28؍ نومبر 2007ء سے 15؍ دسمبر 2007ء تک کے چیف آف آرمی اسٹاف۔ 

10) گریڈ 20؍ اور اس سے زیادہ کے سویلین بیوروکریسی کے تمام ارکان۔ 

11) تین نومبر 2007ء کو موجود قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام ارکان۔ 

12) تمام وفاقی و صوبائی سیکریٹریز۔ 

13) پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے سپریم کورٹ کے تمام ججز، بالخصوص وہ ججز جنہوں نے اقبال ٹکا کیس میں اور اس کی نظرثانی پٹیشن میں فیصلہ سنایا تھا۔ 

14) وفاقی و صوبائی پولیس کے تمام ارکان، ایس ایس پی اور بالائی عہدوں کے افسران۔ 

مشرف چاہتے تھے کہ سویلین اور ملٹری اتھارٹی کے ہر اہم عہدیدار کو اس کیس میں شامل کر دیا جائے تاکہ عدلیہ کیلئے آئین کی منسوخی کیس کا فیصلہ سنانا مشکل ہو جائے۔ 

خصوصی عدالت نے کسی حد تک پرویز مشرف کی 2014ء کی درخواست قبول کرتے ہوئے ریکارڈ پر موجود مواد کی بناء پر فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ساتھیوں اور معاونت کرنے والوں کے کردار کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

لہٰذا، خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت سے کہا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز، اس وقت کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور ا س کے وقت کے چیف جسٹس پاکستان عبدالحمید ڈوگر کیخلاف ترمیم شدہ بیان جمع کرائے یا اضافی بیان جمع کرائے اور ساتھ ہی باضابطہ الزامات کی فہرست بھی جمع کرائی جائے۔ 

تاہم، سپریم کورٹ نے بعد میں مشرف کے ٹرائل کیلئے خصوصی عدالت کے سابق وزیراعظم، سابق چیف جسٹس اور وفاقی وزیر کے نام شامل کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

تازہ ترین