مجھے یہ اعتراف کر لینے دیجئے کہ ایک وقت تھا کہ جب میں صبح صبح دانت صاف کیا کرتا تھا تو نلکا کھلا چھوڑ دیتا تھا۔ ہرروز صاف پانی واش روم کے بیسن میں گر کر ضائع ہو جاتا اور میں دانت صاف کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ آج اس بات کا خیال بھی ذہن سے گزرتا ہے تو صاف پانی کے اس ضیاع پر روح لرز سی جاتی ہے۔ آج میں صاف پانی کی دستیابی کو محض نعمت غیر مترقبہ نہیں سمجھتابلکہ مجھے اس بات کی یاد دہانی ہر اس پل ہوتی ہے جب میں اپنے دانت صاف کر رہا ہوں یا صبح کی کافی پی رہا ہوں یا کھانا پکا رہا ہوں کیونکہ ہر ایسے امر پر صاف پانی کا استعمال لازمی جز ہے۔ پوری دنیا میں پانی ایک بیش قیمت قدرتی خزانہ ہے۔ ہمیں اس کی حفاظت اور اسے صاف رکھنے کے لئے ہرممکن کوشش کرنی چاہئے کیونکہ صاف پانی صحت مند معاشروں اور ترقی یافتہ معیشتوں کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (ملینیم ترقیاتی اہداف) کے دستخط کنندہ کے طور پر پاکستان کی حکومت صاف پانی کی رسائی اور حفظان صحت سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہے اور اس نے حالیہ قلت پر قابو پانے کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ پچھلے مہینے ہی پنجاب حکومت نے ’’صاف پانی پراجیکٹ‘‘ پر عمل درآمد شروع کیا ہے جس کا مقصد چار کروڑ سے زائد دیہی آبادی تک صاف پانی کی مستحکم سہولیات کی دستیابی ہے۔ اس طرح کے اقدامات جہاں پانی سے پھیلنے والے انفیکشن اور امراض کے روک تھام میں مددگار ثابت ہوں گے وہیں ہزاروں خاندانوں کے لئے معاشی طور پر بھی مددگار ثابت ہوں گے جنہیں پانی جیسی بنیادی ضرورت کی دستیابی ممکن بنانے کے لئے اپنے وسائل میں سے ایک بڑا حصہ مختص کرنا پڑتا ہے۔
صاف پانی کی دستیابی کی اہمیت ابھی تک سمجھی نہیں جا سکی۔ اسی لئے امریکی حکومت پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر ہزاروں پاکستانی خاندانوں تک اس کی رسائی ممکن بنانے کے لئے کام کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر جیکب آباد میں بین الاقوامی ترقی کے میونسپل سروسز پراجیکٹ کی امریکی ایجنسی پانی کی پائپ لائنوں کی مرمت و توسیع، پانی کے کنوئوں کی تعمیر اور پانی صاف کرنے کے پلانٹوں کی تعمیر میں مصروف ہے جس سے دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد شہریوں کو صاف پانی کی دستیابی میسر آئے گی۔ اس پراجیکٹ کے تحت یو ایس ایڈ اور یونیسف مل کر جیکب آباد کے رہائشیوں کو ٹی وی اور ریڈیو پر اشتہاروں کے ذریعے حفظان صحت کے اصولوں کی آگاہی اور عوامی رابطہ مہم پر کام کر رہے ہیں۔حفظان صحت کے نظام اور اصولوں پر عمل کرنے کے فوائد عیاں ہیں نیز پاکستان میں صاف پانی کی ضرورت بڑھتی جائیں گی کیونکہ ایک اندازے کے مطابق 2050ءتک ملک کی آبادی تیس کروڑ سے بڑھ جائے گی جس سے ملک کے محدود وسائل شدید دبائو کا شکار ہو جائیں گے۔ آبادی کے بڑھائو کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اور پانی کا ضیاع، ملک میں پانی کی قلت کو مزید بڑھا دیں گے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے پاکستانی اور امریکی حکومتوں کے اشتراک سے ’’یو ایس۔ پاکستان سنٹر فار ایڈو انسڈ اسٹڈیز فار واٹر‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ سینٹر مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جامشورو اور یونیورسٹی آف یوٹا، امریکہ میں واقع ہے اور یہ پانی پر جدید علمی پروگراموں کے ذریعے سائنس دانوں، انجینئروں اور پالیسی سازوں کی اگلی نسل کو پروان چڑھائے گا۔ ابھی تک مہران یونیورسٹی کے چھ فیکلٹی ممبران یونیورسٹی آف یوٹا میں سمسٹر کی تکمیل کے لئے پاکستان سے جا چکے ہیں جہاں وہ پانی کے وسائل، ہائیڈرولکس اور آبپاشی و نکاسی آب کی انجینئرنگ پر جدید ریسرچ میں حصہ لیں گے۔ یہ سینٹر پاکستانی طالب علموں کو کم از کم دو سو پچاس ڈگریوں کے اجراء اور ان میں سے آدھوں کو پانی کے وسائل کی فیلڈ میں ملازمت دینے کا ارادہ بھی رکھتا ہے چونکہ یہ سینٹر ہر قسم کے طلباء کو مواقع دینا چاہتا ہے اس لئے یہ سینٹر چاہتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کی پانی کی ضروریات کے لئے تخلیقی حل ڈھونڈے جائیں بلکہ عورتوں اور اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلباء کی بھی اس عمل میں شمولیت یقینی بنائی جائے۔ یو ایس ایڈ اپنے پاکستانی پارٹنرز کے ساتھ میونسپل سروسز پروگرام اور ’’یو ایس پاکستان سنٹر فار ایڈ وانسڈ اسٹڈیز فار واٹر‘‘ پر کام کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ سرمایہ، فکری سرمایہ کاری اور رویوں کی تبدیلی کے ملاپ کے ذریعے پاکستان اور امریکہ پانی کے مسائل کے حل مل جل کر ڈھونڈ سکتے ہیں۔ مگر ہماری حکومتیں اس مسئلے پر اکیلے قابو نہیں پا سکتیں۔ساری دنیا کے کاروباروں، اسکولوں اور خاندانوں کو اس میں اہم کردار نبھانا ہو گا۔ ہم میں سے ہر ایک کو وسائل کی حفاظت اور اپنے معاشروں میں حفظان صحت کے اصولوں پر عملدرآمد کے لئے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔
(صاحب تحریر مشن ڈائریکٹر، یو ایس ایڈ ہیں)