• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری اتنی جرأت کہاں کہ میں نیب کو کچھ کہہ سکوں۔ یہ تو شرجیل نے اپنے مزاحیہ مضمون میں اور وہ بھی آرٹس کونسل کراچی کے بارہویں ادبی جشن کے دوران کہا تھا، کہا تو بہت کچھ براہِ راست اور کچھ بالواسطہ، جو رقم بھی شاید ہو سکتا ہے۔

مثلاً حامد میر کا ہر دوسرا فقرہ تھا ’’نامعلوم افراد‘‘ جو پاکستان کی سیاسی تنہائی میں اضافہ، آزادیٔ اظہار کو معدوم اور ایسے ایسے حکم نامے آ رہے ہیں کہ ان کا تذکرہ حامد میر ہی کر سکتا تھا۔

البتہ سہیل وڑائچ ذرا عمر میں پختہ ہے وہ غیر سرکاری ہونے کے باوجود سرکاری سطح کے فقروں کے درمیان کچھ سچ کا تڑکا لگا جاتا تھا۔

چلو یہ دونوں تو صحافی اور جہاندیدہ اور قلم کے شہنشاہ تھے کہ یہ مجھے اپنی گفتار سے جسٹس کیانی کو یاد نہ کروا سکے، البتہ ’’بولا کیے اگرچہ اشارے ہوا کیے‘‘۔

نعیم بخاری نے تو منو بھائی اور احمد فراز کے ساتھ مزاح کے انداز میں وہ اشارے کیے کہ ہم جیسے دوست جو ان دونوں حضرات کے 40سال پرانے دوست تھے، بھی نظریں نیچے کیے سوچ رہے تھے کہ آخر ضرور ان دونوں رفتگاں نے کچھ اچھا بخاری جیسے دوست کے ساتھ ضرور کیا ہوگا، ورنہ تہذیب، کیا ایسی گفتگو کی اجازت دیتی ہے!

البتہ انور مقصود، میری طرح بزرگی دکھاتے ہوئے، اپنی اصلی فارم کو غالب کے پردے میں چھپائے رہے۔ بھلا ہو ان کا کہ غالب کے اچھے شعر اور وہ بھی بہت سارے سناتے سناتے وہ آج بھی جنت میں فہمیدہ ریاض کو یاد کرا کے ہمیں حارث خلیق کے خطبے کی جانب لے گئے۔

اس نوجوان نے پاکستانیوں کو پاکستان کے مسائل کے بارے میں ایسے بتایا کہ ہر بیان کے ساتھ ایک ٹھنڈی آہ نکلتے ہوئے، ہمارے دل کہہ رہے تھے کہ بلوچستان ہو کہ بدین کہ لاپتا افراد اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے قصے، سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا۔

سوچ سمجھ کر حکومت اور ادیبوں دونوں کو جتا گئے کہ 214مہینوں سے وفاق اور صوبوں کے وعدے سنا کیے۔ یہاں ہر ایک کو بار بار 119کروڑ پائونڈ، اس لئے یاد آئے کہ انگلینڈ سے وہ پیسے اگر آئے ہیں تو کس کے گھر یہ سیلاب گیا کہ حکومت کے پاس آئے ہوتے تو کم از کم بجلی اور گیس کی قیمتیں کم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مکان، بقول غالب بے دیوار و در، نظر تو آتے ہیں

، میں نے اپنے پالے ہوئے بچے کی پونے تین مرلہ جگہ کیلئے بہت ترلے کیے کہ کچھ پیسے تو اس غریب کو مل جائیں۔ آخر کو اپنے ہی مہربانوں سے مانگنے پڑے ان کی عنایت انہوں نے بھی خوشدلی اور مہربانی سے میری عزت رکھ لی۔

کراچی اردو کانفرنس‘ ہر سال کی طرح فروعی مضامین اور ویسے ہی پروفیسروں پر مشتمل نہیں تھی۔ اول تو تین چار جگہ ہی بیک وقت محافل اور مذاکرات تھے۔

سب موضوعات ہماری قومی زبانوں اور ان کے مسائل سے متعلق تھے۔ جنوبی پنجاب کے لوگ بہت غصے میں تھے کہ جیسے بھرے بازار میں لونڈیا کی عزت لوٹی جاتی ہے، ویسا ہی حکومت نے کہا کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے، بجٹ مختص کرنے، سیکریٹریٹ قائم کرنے کے کیا کیا وعدے تھے جو چوراہے میں پھوٹ گئے۔

بلوچیوں کو گلہ تھا کہ ہمارے پہاڑوں، بادام کے درختوں اور چلغوزوں کےباغات کا تذکرہ اردو ادب میں کیوں کم کم ہے۔ ہر طرف سے یہ بیان زور پکڑتا گیا کہ ہر چند اردو رابطے کی ایسی زبان ہے جو ملک کے چپہ چپہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

پھر بھی قومی زبانوں کے ادب کو اردو میں منتقل کرنے اور اردو ہی میں باقی زبانوں کے الفاظ تو آ رہے ہیں کہ آج کی پاکستان کی اردو، وہ نہیں ہے جو حسن نظامی اور اشرف صبوحی لکھا کرتے تھے۔

مگر طاہرہ اقبال کا نیا ناول ’’گراں‘‘ ’’دیکھو تو اس میں‘‘ ہر اردو کے فقرے کے ساتھ پوٹھواری میں جملے لکھے اور ان کا ترجمہ بھی کیا گیا، زبانیں یوں زبردستی نہیں بدلا کرتی ہیں گزشتہ 20برس میں تو انتظار حسین کے اسلوب، لہجے اور موضوعات میں تنوع، شہادت دیتا ہے کہ کوئی بھی زبان جامد نہیں ہوتی۔

مسلم شمیم صاحب کے اردو کا مقدمہ اور دہائی‘ دونوں کو سن کر ہم سب نے سینہ کوبی کی مگر ’’مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر‘‘۔

کشمیر کے موضوع پر ایسی ہی باتیں ہوئیں جیسا کہ گزشتہ چار ماہ سے ہو رہی ہیں۔ دہائی یہ تھی کہ کوئی روہنگیا کے مسلمانوں کا مقدمہ جیسے عالمی عدالت تک پہنچ گیا اور وزیراعظم آنگ سان سو چی کو حاضری دینی پڑی، بالکل اس طرح کوئی کشمیریوں کا مقدمہ، مودی کے خلاف بھی لے جائے، ہم لوگ بھی کس قدر خوش فہم ہیں۔

آٹھ کروڑ لوگوں کو پابہ زنجیر سب دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کوئی فقرہ، کوئی نعرہ اور پھر بس جبکہ ہمارے سارے طلبہ، لڑکیاں اور لڑکے کراچی میں بھی کہہ اور گا رہے تھے کہ ’’سرفروشی کی تمنا پھر ہمارے دل میں ہے‘‘۔

بیان کرنے کو تو اس کانفرنس میں اتنا کچھ ہے کہ دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ کانفرنس میں پورا شہر امڈ آیا تھا۔

پھر احمد شاہ نے اپنی ٹیم میں جن رضا کار بچیوں اور بچوں کو شامل کیا تھا، وہ کوئی یونہی بیکار گھومتے بچے نہیں تھے۔ یہ تو انجینئر، ڈاکٹر، کمپیوٹر ڈائریکٹر تھے۔

وہ اپنی مرضی اور خوشی سے آئے تھے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر لے جانے والی بچیاں اتنی مہذب اور ادب شناس تھیں کہ جی خوش ہوا کہ ہماری شعوری کوششیں رنگ لا رہی ہیں مگر ان سب ہونہار نوجوانوں میں یہ جذبہ خود بخود نہیں، ان کے خاندانوں کے علاوہ، احمد شاہ کے لفظوں اور جذبوں نے ہر آنے والے، سننے والے اور گفتگو کرنے والوں میں یہ جان ڈال دی تھی کہ ہر ایک کا کانفرنس کی کامیابی کو احمد شاہ، ندیم، ایوب شیخ کی فرض کی ادائیگی نہیں، بلکہ پوری ذمہ داری اور محبت سے کراچی کی نئی نسل سرفروشی کی تمنا لئے، مہمانوں کیلئے آنکھیں بچھا رہی تھی۔

کراچی آرٹس کونسل کا عمارتی پھیلائو بھی احمد شاہ کی ہمتوں کا آئینہ دار تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین