• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کا دماغ قدرت کا وہ عجیب طلسم کدہ ہے جسے کسی بھی رُخ لگا دیا جائے، ذہانت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ آپ تحریری ذہانت رکھتے ہیں توارض و سماوات کے سارے مظاہر الفاظ کی صورت ناچتے نظر آئیں گے۔ مصورانہ ذہانت جگانے سے ہرچیز تصویر نظر آئے گی، تصویری ذہانت بیدار ہو تو مظاہرِ فطرت کو آپ ہدایت کار کی نظر سے پرکھیں گے۔ 

یہی ذہانت سائنسی ذہانت میں بدل دیں تو آپ موجودہ دنیا کے مقابل ہوں گے،جہاں ٹیکنالوجی نے ہماری دنیا کو میٹرکس بنا دیا ہے اور اب انہی ذہانتوں کو پروان چڑھانے کیلئے دماغی صلاحیتوں کو فروغ دینے والی تعلیم و تدریس (Brain Based Learning) کا دور دورہ ہے تاکہ اپنے رجحان و میلان کے مطابق سیکھنے کے عمل کو بامعنی بنا کر کامیابی کو حتمی بنایا جاسکے اور درس گاہوں میں رٹہ لگانے والے طوطوں کے بجائے تخلیقی ذہانت رکھنے والے طالب علم پیدا کیے جاسکیں، جو جاب مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق علم و ہنر سے آراستہ ہوں۔ 

ایسے ہی کچھ تخلیق کار اساتذہ نے اپنے کلاس رومز میں دماغی بنیادوں پر درس و تدریس کا عمل شروع کیا ہے ، جہاں طلبا انفرادی طور پر اپنا علم تخلیق کرتے ہیں اور باہمی تعاون سے بات چیت کرتے ہوئے تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دیتےہیں۔

دماغ پر مبنی تعلیم کے اثرات

اہلِ علم جانتے ہیں کہ اعصابی سائنسدان اس حوالے سے دلچسپ دریافتیں کر رہے ہیں کہ ہمارا دماغ کس طرح کام کرتا ہے۔ دماغی سائنس کی روز افزوں ترقی و پیش رفت دیکھ کر لوگ بھی اس سوال کا جواب جاننے میں دلچسپی لے رہے ہیں کہ دماغ پر مبنی تعلیم کس طرح تعلیم کا چہرہ بدل رہی ہے؟ ایجوکیشنل ٹیکنالوجی کا کیا کردار ہے؟ برین امیجنگ ایکوپمنٹس نے محققین کے لیے انسانی دماغ کے اندر جھانکنے میں مدد مہیا کی ہے۔ 

وہ دیکھ سکتے ہیں کہ جب کچھ خاص کام انجام دئیےجائیں تو دماغ کے کون سے حصے متحرک ہوتے ہیں۔ اس پیش رفت سے جہاں دماغی صحت کے بنیادی مسائل کی تشخیص کرنے میں مدد ملی ہے، وہیں اپنے اور دوسروں کے رویوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلینکل سائیکاٹری باقاعدہ سائنس تسلیم کی جانے لگی ہے۔ دماغی سائنس کی ترقی سے اساتذہ کے لیے بھی یہ سوال بامعنی بن گیا ہے کہ کم عقل طالب علموں کو کلاس روم میں ذہانت پر مبنی تدریس و تعلیم کیسےدی جائے۔

علم و تجربے سے استفادہ

دماغ پر مبنی تعلیم کے نصاب میں طالب علموں کی ذہنی صلاحیتوں اور رجحان کو دیکھتے ہوئے اطلاقی و عملی سوالات پوچھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جن کے جوابات سوشل میڈیا پر موجود سائنسدانوں اور ماہرین سے حاصل کرنا آسان ہوگیا ہے۔ 

موجودہ دور کے تقاضے مارکیٹ کی طلب و رسد پر مبنی معلومات اور تجربے کے ہیں، لہٰذاثقافتی، نسلی اور معاشرتی طور پر متنوع طلبا کی آبادی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اساتذہ نے نئے طریقے اور تراکیب کے ایسے ماڈل وضع کیے ہیں جہاں یکساں دلچسپی رکھنے والے طالب علموں کا ایک گروپ تشکیل دے کر ان کے من پسند شعبے میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اطلاقی تعلیم کے ساتھ فنی تعلیم کیلئے اپرینٹس شپ پروگرام متعارف کروائے جاتے ہیں، جس کا رجحان پاکستان میں بھی ترویج پارہا ہے۔

کلاس روم میں دماغ پر مبنی تعلیم

دماغ پر مبنی تعلیم طلبا کو چاق و چوبند بناتی ہے اور انھیں بوریت سے بچاکر سیکھنے میں مدد دیتی ہے۔ اکتاہٹ اور تناؤ سے پاک کلاس روم میں طالب علموں کی ذہنی صلاحیتیں بڑھتی ہیں۔ آگاہی کو فروغ دینے کیلئے ہلکی خوشبوؤں اور خوبصورت روشنی کا استعمال پڑھانے اورسیکھنے میں رنگ بھر دیتاہے، پھر تعلیم کھیل اور تفریح بن جاتی ہے۔ اساتذہ طالب علموں کے مابین مباحثے کیلئے کلاس روم کے چاروں اطراف ورک گروپ قائم کریں۔ 

بیٹھنے کیلئے نرم کرسیاں ہوں، بارش کا مضمون ہو تو پس منظر میں بارش کی آواز ہو، انگوروں کی بات ہو تو پوری دیوار انگوروں سے سجادی جائے۔ کلپ،چارٹس اور پروجیکٹر کی مدد سے کلاس روم کو منی سینما کا روپ دے دیا جائے۔غرض کہ آڈیو اور ویڈیو کے ساتھ دی جانے والی یہ تعلیم طالب علموں کے ذہن سے کبھی اوجھل نہ ہوگی اور ان کیلئے کلاس روم میں ہر دن یادگار ہوگا۔ طلبا کو چاہیے کہ مطالعہ کو چیلنج سمجھیں، تدریسی اسائنمنٹ جتنا پیچیدہ ہوگا ، اتنا ہی زیادہ سیکھنے کوملے گا۔

تعلیم، فن اور موسیقی

دورِ جدید میں اساتذہ فن اور موسیقی کو اسباق میں متعارف کروارہے ہیں۔ فنکارانہ کوششیں دماغ میں ایسی تصاویر کو متحرک کرتی ہیں جو پیچیدہ خیالوں کو تقویت دیتی ہیں۔ اگر طلبا کو لائٹ بلب کے بارے میں تعلیم دی جارہی ہو تو انفرادی اجزا کی ڈرائنگ کرنے اور ان پر لیبل لگانے سے بنیادی ڈیزائن کواجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہر بچے کے لیے سیکھنے کا فولڈر مرتب کیا جاتا ہے،جس سے طالب علم آرٹ ورک ، پچھلے ٹیسٹ اور سیکھنے کے عمل کے دوسرے عناصر کو محفوظ کرتے ہیں۔ 

مختصراً یوں سمجھیں کہ دماغ پر مبنی تعلیم اکتاہٹ کو ختم کرنے اور دماغی خلفشار کے بغیر تعلیم و تربیت کا نام ہے۔ سیکھنے کا عمل فطری طور پرترویج پاتا ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ روایتی لیکچر کےماحول کو اگر سترنگی بنایا جائے تو اس کے دماغ پر دیرپا اثرات رہتے ہیں، پس منظر کی خوبصورتی اور دورانِ تعلیم ہلکی موسیقی کے اثرات نیز اسباق کی ویڈیوز اور تصاویر یادداشت کو تیز کرنے کے ساتھ ارتکازِ توجہ میں بھی ممد و معاون ہوتی ہیں۔ اس تعلیم میں اپنے دماغ سے سوچنے کی تربیت اختراع ساز اذہان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

تازہ ترین