گزشتہ برس چینی خلائی جہاز نے چاند کے عقبی حصے میں لینڈ نگ کرکے تاریخ رقم کی،کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بجلی اور ہائیڈروجن میں تبدیل کرنے کے لیے نیا نظام متعارف ہوا،نت نئے روبوٹس بنےاور بہت کچھ ہوا
گزشتہ برسوں کی طر ح 2019میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کےاُفق پر بہت سے ستارے جگمگائے ،کیوں کہ اس برس بھی دنیا بھر میں علم وحکمت، دریافتوں اور ایجادات کی دوڑ بہت تیزی سے جاری رہی ۔کہا جاتا ہے کہ تحقیق اور ایجادات ترقی کے دواہم پہلو ہیں، ان کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا ،چناں چہ مختلف ماہرین اور سائنس دانوں نے2019ء میںدریافتوں اور ایجادات کے متعدد جھنڈے گاڑے ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سائنس اورٹیکنالوجی کے شعبوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ان شعبوں میں اب پاکستان بھی آہستہ آہستہ ترقی کررہا ہے ۔گرچہ 2019ءبھی سائنس اورٹیکنالوجی کا کینوس وسیع کرنے میں کافی اہم سال ثابت ہوا، تاہم ذیل میں صرف ان چند ایجادات کا تذکرہ کیا گیا ہے جو کسی بھی ملک کا آنے والے وقتوںمیں نقشہ بدلنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں ۔
چینی جہاز پہلا خلائی مشن بن گیا
2019ء میں چینی خلائی جہاز نے چاند کے عقبی حصے میں لینڈنگ کرکے تاریخ رقم کی اور یہ جہاز تاریکی میں اترنے والا پہلا جہاز بن گیا ہے ۔اس سے قبل چاند پر جانے والے مشن اس حصے میں گئے تھے جو زمین کے رُخ پر ہے لیکن یہ پہلا موقع ہےجب کوئی جہاز چاند کے پچھلے حصے میں گیا ہے ۔چینی خلائی گاڑی مختلف قسم کے آلات سے لیس ہے ،اس نےچاند کے ارضیاتی خصوصیات جانچنے کے علاوہ حیاتیاتی تجر بہ بھی کیا ہے ۔
ہم زمین سے چاند کا صرف ایک ہی رُخ دیکھ سکتے ہیں ،کیوں کہ چاند کی اپنی محو گردش میں اتنا ہی وقت لگتا ہے جتنی دیر میں وہ زمین کے گرد چکر لگاتا ہے جب کہ چاندکے دونوں جانب دن اور رات کا وقت یکساں ہوتا ہے ۔
بیکٹیریا سے بجلی بنانے والی بیٹری
رواں سال میسا چیو سیٹس انسٹی ٹیوٹ (ایم آئی ٹی )کے ماہرین نے ایسی بیٹریاں تیار کی ہے جوبیکٹیریا (جر ثومے) پر مشتمل ہوگی اور ان کی مدد سے آلات کو آسانی سے چلا یا جاسکتاہے ۔ماہرین نے ان کی در جہ بندی کا ایک نیا طر یقہ وضع کیا ہے ۔حالاں کہ انہیں لیبارٹری میں رکھنا اور ان کی تعداد میں اضافہ کرنا خاصاً مشکل اور مہنگا کام ہے ۔
لیکن ایم آئی ٹی کے ماہرین کے نئے طر یقے پر عمل کرتے ہوئے بجلی پیدا کرنے والے بیکٹیریا کو الگ کرنا قدرے آسان ہو گیا ہے ۔ماہرین کے مطابق بیکٹیریا میں ای ای ٹی کے عمل کو دیکھنا اور اس کی درجہ بندی سب سے بڑا چیلنج تھا ۔اس کے لیے تیکنیک ڈائی الیکٹر وفوریس و استعمال کرکے دواقسام کے بیکٹیریا الگ کیے گئے تھے ،جس کے ذریعے زیادہ بجلی بنانے والے بیکٹیریا سامنے آئے ۔
بلیو ٹوتھ اسٹیکر
امریکی شہر نیو یارک میں واقع ویلیئٹ کمپنی نے 2019 ء میں ایک بلیو ٹوتھ اسٹیکر تیار کیا ہے جو ہوا میں موجود بر قناطیسی یا ریڈیائی امواج سے توانائی جذب کرکے بیٹری کے بغیر توانائی پید اکرتا ہے اور اسمارٹ فون تک سگنل بھیجتا ہے۔
اس بلیو ٹوتھ پیو ند میں اے آر ایم پروسیسر نصب ہے جو اطراف سے توانائی جمع کرکے خود کو چلاتا ہے ۔اس میں ایک چھوٹی سی چپ پر اینٹیناچھاپ کر اسے کسی بھی کاغذ یا پلاسٹک کے ٹکڑے پر پیوست کیا جاسکتا ہے ۔
یہ بلیو ٹوتھ اسٹیکر کسی بھی اسمارٹ فون ،انٹر نیٹ اور دیگر پلیٹ فارم سے را بطہ بھی کرسکتا ہے ۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بجلی اور ہائیڈروجن میں تبدیل کرنے کے لیے نیا نظام متعارف
ماحول دشمن گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ماہرین نے ہائیڈروجن میں تبدیل کرنے کا رواں سال نیا نظام متعارف کروایا ہے ۔جارجیک اور السن انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین نےمشتر کہ طور پر مائع بیٹری نما نظام تیار کیا ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے اس سے بجلی بناتا ہے ۔اس سسٹم کو ’’ہائبر ڈاین اے ،سی اوٹو سسٹم ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔یہ بنیا دی طور پر ایک مائع بیٹری کی طر ح ہے ۔
اس میں سوڈیم دھات کے اینو ڈ لگائے گئے ہیں جو نامیاتی بر قیرے (آرکینک الیکٹرولائٹ ) کا کام کرتے ہیں ۔جب کہ کیتھو ڈ میں ایک مائع محلول ہے ۔اس طر ح دواقسام کے مائعات کو ایک خا ص جھلی سے الگ الگ رکھا جا تا ہے ،جس کو ’’سوٹیم سپر آیونک کنڈکٹر ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔جیسے ہی مائع الیکٹرو لائٹ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ داخل کی جاتی ہے تو کیتھوڈ سے عمل ہونے کے بعد محلول کو مزید تیزابی بنادیتی ہے ،پھراس سے بجلی اور ہائیڈروجن پیدا ہوتی ہے ۔
درختوں میں موجود انفیکشن کی خبر دینے والا سینسر
2019 ء میںبرازیل میں موجود تجارتی نوعیت کے جنگل کے درختوں پر ایسے اسمارٹ سینسر نصب کیے گئے ہیں جو اپنی خبر خود دے سکتا ہے ۔ا س کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا سارا ڈیٹاایک اسمارٹ فون پر بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔یہ سینسر بر ازیل کی ایک نجی کمپنی نے تیار کیا ہے ۔اس نظام کو ’’اسمارٹ فوریسٹ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔
یہ سینسر درختوں کے انفیکشن ،امراض کے حملے اور پودوں کی ابتدائی کیفیات سے ماہرین کو آگاہ بھی رکھتا ہے ۔ہر درخت پر نصب کیا گیا سینسر پورے دن کی روداد جمع کرتا ہے ،جسے ایپ کے ذریعے اسمارٹ فون پر دیکھا جاسکتا ہے ۔اس پورے نظام کو مالیاتی جنگلات کی نگرانی کے لیے بہت اچھی طر ح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ برازیلی کئی کمپنیاں اس ٹیکنالوجی سے استفادہ بھی کررہی ہیں ۔
پانی سے جراثیم ختم کرنے والی دھات
رواں سال چینی ماہرین نے ایسی جادوئی دھات تیار کی ہے ،جس پر سورج کی روشنی ڈال کر 99.99 فی صد جراثیم اور بیکٹیریا ختم کیے جاسکتے ہیں ۔اس پر بالائے بنفشی یا الٹروائلٹ روشنی ڈالی جائے تو صرف ایک گھنٹے میں یہ 10 لیٹر پانی سے بیکٹیریا اور جراثیم کا خاتمہ کرکے پانی کو پینے کے قابل بناتا ہے ۔ماہرین کی جانب سے اس عمل کو ’’ضیائی عمل انگیز جراثیم یا فوٹو کیٹیلک ڈس انفیکشن ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔
یہ رائج فلٹر نظاموں کے بہتر متبادل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کم خرچ اور ماحول دوست ہے اور اس کے ذرات پانی میں شامل نہیں ہوتے اور یوں پانی خالص اور صاف ہو جاتا ہے ۔ ۔دس لیٹر پانی صرف ایک گھنٹے میں جراثیم سے پاک ہوجاتا ہے ۔ماہرین کے مطابق یہ ایجاد موثر اور قابلِ عمل ہے ۔
ڈرون مکھی
2019ء میں فرانس کے ایرونا ٹیکل انجینئر ایڈون وان رایو نے ڈرون مکھی تیار کی ہے ،جس کو ’’میٹا فلائی‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔اس کو کئی اُڑنے والے کیڑوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے ۔اس کا وزن صرف 10 گرام ،لمبائی ساڑھے 7 انچ اور اس کے پروں کا گھیر تقریباً 11 انچ ہے ۔اس میں نصب کورلیس موٹر کی مدد سے اس کے پر پھڑ پھراتے ہیں جولیتھیئم پالیمر بیٹر ی سے چلتی ہے ۔پروں کی حرکت سے جو حرارت پیدا ہوتی ہے اسے جذب کرنے کے لیے ایلومینیئم ہیٹ سنک بھی لگایا گیا ہے ۔
ماہرین کے مطابق میٹا فلائی کو دروران ِپرواز کنٹرول کرنے کے لیے اس میں دو چینل کا ریڈیو ریموٹ کنٹرول موجود ہے ۔15 منٹ چارج ہونے کے بعد یہ 8 منٹ کی پرواز کرسکتی ہے ۔علاوہ ازیں اس میںایک پاور بینک بھی ہے ،جس سے ڈرون کو چارج کیا جاسکتا ہے،تا ہم یہ کیڑا زیادہ سے زیادہ 100 میٹر کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے ۔اس کا پورا جسم کاربن فائبر اور دیگر لچک دار پالیمر سے بنایاگیا ہے ۔
پانی اور زمین پر چلنے والی ڈرون کشتی
اس سال چینی سائنس دانوں نے ڈرون ٹیکنالوجی سے لیس دنیا کی پہلی بحری اور بری محاذ پر کار آمد کشتی تیارکی ہے اور اس کا کام یاب تجربہ بھی کرلیا گیا ہے ۔یہ کشتی پانی اور زمین میں یکساں طور پر سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سیٹلا ئٹ سے بھی چلا یا جاسکتا ہے ۔ حیرت انگیز صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اس ڈرون کشتی کو ’’سمندری چھپکلی ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔
اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ زمین پر پہنچتے ہی اپنے اندر موجود جنگی ٹینک کی طر ح کے لوہے کے پٹے میں بندپہیوں tracka کو نکال کران پر سفر جاری رکھتا ہے ،ان ٹریکس کے ذریعے ڈرون کشتی 20 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے سفر طے کرسکتی ہے جب کہ پانی میں تیرتے ہوئے یہ ٹریکس کشتی کے اندر رہتے ہیں۔تین خانوں والی ڈرون کشتی کی لمبائی 12 میٹر ہے جسے ہائیڈرو جیٹ کی مدد سے چلایا جاتا ہے اور اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے وزن کے ساتھ اس کی رفتار 50 نوٹس تک ہوسکتی ہے جب کہ اس کی رینج 1200 کلو میٹر تک ہے۔
درختوں سے ماحول دوست پلاسٹک تیار
یونیورسٹی آف وسکانس کے سائنس دانوں نے رواں سال جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیکٹیریا بنایا ہے جو درختوںکی لکڑی سے ماحول دوست پلاسٹک تیار کرسکتاہے ۔ماہرین کے مطابق کھادمیں موجود بیکٹیریا این ایرو میٹی سائی وورن پودے اور درختوں کے ایک جز و’’لائگنن ‘‘ کو ہضم کرسکتا ہے ۔یہ سبز پودوں کی خلوی دیوار میں پایا جا تا ہے ۔ایک تحقیق کے مطابق بیکٹیریابہت سے مفید مرکبات (کمپائونڈ) بنا سکتا ہے ۔لائگنن کو ہضم کرکے ایک طر ح پیچیدہ کیمیکل بناتا ہے ۔
جسے ٹوپائرون فور ،سکس ڈائی کاربو آکزیلک ایسڈ یاپی ڈی سی کہا جاتا ہے ۔ماہرین کو اس کے لیے بیکٹیریا سے تین اہم جین نکالنے پڑے ،بعدازاں وہ مطلوبہ مرکب تیا ر کرنے کے قابل ہوگیا ۔یہ مرکب خواص پلاسٹک پالیمر کے جیسا ہے اور اس سے پلاسٹک کی اشیاباآسانی بنائی جاسکتی ہے لیکن یہ پلاسٹک ازخود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر ازخود گھل کر ختم بھی ہوجاتا ہے ۔
ناسا کا انوکھا سپر سانک جیٹ تیار
2019 ء میں امریکی خلائی ادارہ ناسا کے ڈیزائنروں نے ایک ایسا سپر سانک طیارہ ڈیزائن کیا ہے ،جس میں کاک پٹ درمیان میں لگا ہے ، طیارے کے ڈھانچے کو دیکھ کر اس پر پنسل کا گمان ہو تا ہے ۔کاک پٹ دور ہونے کی وجہ سے پائلٹ کو سامنے کا منظر دیکھنے میں پر یشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لیکن ناسا نے اس کا حل پیش کرتے ہوئے ایک فور اسکرین لگا یا ہے ،جس پر کئی طر ح کے کیمرے نصب کیے گئے ہیں ،جن کی مدد سے پائلٹ سارا منظر دیکھ سکتے ہیں ۔
ڈیزائنرنےاس طیارے کو 59 کیو یو ای ایس ایس ٹی یا کیوسٹ کا نام دیا ہے، اس کی نوک پر دو جدید ترین کیمرے نصب کیے گئے ہیں ،جن کا کا م مشترکہ طور پر پورا منظر دکھانا ہے ۔ اس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ جیسے ہی آواز کی رفتار سے آگے جاتا ہے تو اس سے بلند آواز والی ’’صوتی گونج ‘‘ پیدا نہیں ہو تی ۔ماہرین کے مطابق فی الحال یہ مسافر بردار نہیں لیکن اس کی تحقیق سے ایسے طیاروں پر پیش رفت ہوسکے گی جوسونک بوم کے بغیر آواز سے تیز رفتار سفر کریں گے ۔
ڈیٹا محفوظ کرنے کے لیے ’’یونیورسل میموری ‘‘ ایجاد
بر طانوی یونیورسٹی نے رواں سال صارفین کا ان گنت اور لاتعداد ڈیٹا محفوظ کرنے کے لیے ایک الیکٹرنک میموری ایجاد کی ہے ۔ماہرین نے اسے ’’یونیورسل میموری ‘‘ کا نام دیا ہے ۔لنکا سٹر یونیورسٹی کے ماہر طبیعیات کےمطابق یونیورسل میموری بھی ایک الیکٹرانک میموری جیسی ہی ہے ،تا ہم اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں دونوں] طر ح کی میموریز یعنی RAMاور Falash Storage کو یکجا کیا گیا ہے ۔
اس میں DRAMکے مقابلے میں 100 گنا ڈیٹا محفوظ رکھنے کی صلاحیت موجود ہے ۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یونیورسل میموری بھی Intrinsic data storage time رکھتی ہے جب کہ یہ توانائی بھی کم استعمال کرتی ہے ۔یہ میموری ایسے کمپیوٹر پر بھی کام کریں گی جسے کبھی بوٹنگ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔اس میموری کے باعث صارفین کو بار بار کمپیوٹر ،موبائل فونز اور ایپس وغیرہ کو اپ ڈیٹ کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی ۔
سڑک کی رگڑ سے بجلی بنانے والے ٹائر
رواں سال ایک جاپانی کمپنی نے ایسے ٹا ئر ایجاد کیے ہیں جو سڑک کی رگڑ سے بجلی پیدا کریں گے ۔ماہرین نے اس میں ایک چھوٹا سا آلہ نصب کیا ہے جو بجلی کو جمع کرتا رہتا ہے ۔بجلی بنانے والے جنریٹر میں ربڑ کی دو تہیں لگائی گئی ہیں ،جس کے اندر الیکٹر وڈ لگے ہیں ۔ان میں منفی اور مثبت چارج والی پرتیں موجود ہیں ،جیسے ہی ٹائر سڑک سے رگڑتے ہوئے چلتے ہیں تو وہ ایک قسم کی بر قی قوت پیدا کرتا ہے ۔
جسے الیکٹرواسٹیٹک سٹی کہا جاتا ہے ۔اس طر ح ٹائر رگڑ کی قوت سے بجلی پیدا کرتا ہے ۔گر چہ اس سے بننے والی بجلی کی مقدار معمولی ہوتی ہے لیکن اس سے کئی چھوٹے آلات کو بآسانی چلایا جاسکتا ہے ۔ان گاڑیوں میں ریڈیو ،ڈیش بورڈ کی روشنیاں اور دیگر سینسر بھی ہوسکتے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بعدازاں پورے نظام کو مزید بہتر بنا کر دیگر آلات کے لیے بھی بجلی کی فراہمی ممکن ہو جائے گی ۔
مختلف اشیا ء سے جر اثیم کو ختم کرنے والا آلہ
2019 ء میں ماہرین نے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جو کپڑوں ،سبزیوں اور پھلوں کو جر اثیم سے پاک کرسکتا ہے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آسانی سے مٹھی میں بھی سما سکتاہے۔یہ آلہ صرف 50 واٹ بجلی استعمال کرتا ہے اور فی سیکنڈ 50 ہزار ارتعاشات (وائبریشن ) سے اشیاء کو صاف اور جراثیم سے پاک کرتا ہے ۔کمپنی کا دعویٰ ہے کہ مختلف اشیاء سے یہ نہ صرف جراثیم اور بیکٹیریاختم کرسکتا ہے بلکہ سبزیوں اور پھلوں سے مضر کیمیکل اور کیڑے مار ادویات کے آثار بھی دور کردیتا ہے ۔
اس کو استعمال کرنا بھی بہت آسان ہے،جس شے کو صاف کرنا ہو اسے پانی میں ڈبوئیے اور اس پیالے میں سونک سوک رکھ کر اسٹارٹ کا بٹن دبادیں ،پھر تھوڑی دیر میں وہ چیز مکمل طور پر صاف ہوجاتی ہے ۔یہ آلہ ایک عام مشین کے مقابلے میں پانی کا استعمال بھی 400 گنا کم کرتا ہے اور توانائی بھی 15 گنا کم خرچ ہوتی ہے ۔
اس آلے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا بھی قدرے آسان ہے ۔ماہرین کے مطابق یہ مکمل طور پر واٹر پروف ہے ۔کمپنی نے اس کی قیمت 150 ڈالر مقرر کی ہے اور ہر ملک کے بجلی کے نظام کے تحت اسے تیار کیا گیا ہے ۔
زمین کی گرمی سے بیٹری چارج کرنے والا نظام
دنیا میں اس وقت ایک ارب سے زائد افراد بجلی کی نعمت سے محروم ہیں۔ اسی کے پیشِ نظر رواں سال ایک نیا نظام بنایا گیا ہے جو رات کے وقت زمین سے خارج ہونے والی حرارت کو بجلی میں بدلتا ہے اور یوں پہلے مرحلے میں اس سے موبائل فون کے علاوہ ایل ای ڈی لائٹس کو روشن رکھنے والی بیٹریاں چارج کی جاسکتی ہیں۔یہ آلہ رات کے وقت زمین سے خارج ہونے والی گرمی یا حرارت سے بجلی بناتا ہے۔
اسے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس کے سائنسداں ڈاکٹر آسوتھ رامن نےاور ان کے ساتھیوں نے تیار کیا ہے۔اس ٹیکنالوجی میں تھرمو الیکٹرک اثر سے برق پیدا کی جاتی ہے۔ یہ آلہ تھرمو الیکٹرک اثر استعمال کرتے ہوئے بجلی بناتا ہے۔ عین اسی طرح کارخانوں کے بوائلر، حرارتی پلانٹ اور کاروں کے ایگزاسٹ سے نکلنے والی گرمی کو بجلی میں بدلنے والے آلات عام استعمال ہو رہے ہیں۔ڈاکٹر آسوتھ رامن نے جو نیا طریقہ اختیار کیا ہے اسے ’’ریڈی ایٹو اسکائی کولنگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے لیے پولی اسٹائرین ڈبے پر ایک سیاہ ڈسک رکھی گئی ہے ،جس کا رخ آسمان کی جانب ہے اور اس میں المونیم سے بنی ایک رکاوٹ یا بلاک رکھا گیا ہے۔
سیاہ ڈسک زمینی حرارت کو ٹھنڈا کرتی ہے اور المونیم بلاک رات کی ٹھنڈی ہوا کو گرم کرتا ہے۔ اس فرق سے تھرمو الیکٹرک بنتا ہے اور اس سے بجلی کی بڑی مقدار بنتی ہے۔ابتدائی تجربے میں ایک مربع میٹر سے 25 ملی واٹ بجلی بنتی ہے جو ایک ایل ای ڈی روشن کرنے کے لیے کافی ہے لیکن گرم علاقوں میں بجلی کی پیداوار 20 گنا بڑھ سکتی ہے جہاں درجہ ٔحرارت میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ اس طرح ایک ایل ای ڈی بلب یا موبائل فون آسانی سے چارج کیا جاسکتا ہے۔اس پورے نظام کی قیمت صرف 30 ڈالر ہے ۔
جیمز ویب خلائی دوربین
2019 ء میں سائنس دانوں نے ایک جدید ترین خلائی دوربین جیمز ویب ٹیلی اسکوپ تیار کی ہے جو ہبل خلائی دوربین کی جگہ لے گی اور کائنات کے رازوں سے پردہ بھی اُٹھائے گی ۔اس طر ح جیمز ویب خلائی دوربین انسانی تاریخ کی سب سے طاقتور، پیچیدہ، جدید ترین اورمدار میں بھیجی جانے والی سب سے بڑی خلائی دوربین کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔
یہ ہبل خلائی دوربین سے سات گنا زائد روشنی مجتمع کرکے ہمیں کائنات کی بہترین تصویر دکھائے گی اور انفراریڈ (زیریں سرخ) روشنی دیکھنے کی بدولت کائنات کے دوردراز اجسام کی تصویر بھی لے سکے گا اور شاید ہم قدیم کائنات کی وہ جھلک بھی دیکھ سکے، جس کا آج کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ 2007 ءمیں اس کی تیاری کا باقاعدہ منصوبہ شروع ہوا۔
اب اس کے تمام پرزے جوڑدیئے گئے ہیں اور اسمبلی مکمل ہوچکی ہے۔ایک کرین کے ذریعے دوربین کے دو حصوں کو باہم جوڑا گیا ،ہے جس میں انتہائی درست اور حساس آئینے لگائے گئے ہیں۔ سال 2021 ءمیں اسے مدار میں بھیجا جائے گا۔
زمین کے قریب ستاروں کا دریا دریافت
2019ء میں ماہرین فلکیات نے زمین سے قریب ایسے ستاروں کا مجموعہ در یافت کیا ہے جو ایک ساتھ ایک سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔انہیں ’’ستاروں کا دریا ‘‘ کا نام دیا ہے۔یونیورسٹی آف ویانا اورآسٹریا کے ماہرین نے یورپی خلائی سیٹلائٹ گا یا کی تصاویر اور ڈیٹا میں ان ستاروں کو دریافت کیا ہے ۔تاروں سے بھری اس لہر میں 4000 سےزائدستارے موجود ہیں ۔ماہرین کے مطا بق ستاروں کا یہ دریا ایک ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور انہیںدیکھ کر جھرمٹوں کے اشتراک ،ملکی وے کے ثقلی میدان اور دیگر سیاروں کی تحقیق کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں ۔
ان کی دریافت اور حساب کتاب میں سب سے اہم کردار گایا سیٹلائٹ کا ہے اور اسی بناء پر ماہرین نے ستاروں کے دریا کا تھری ڈی نقشہ بھی بنایا ہے جو ان کی حرکت کو ظاہر کرتا ہے ۔گرچہ یہ ستارے ایک ہی وقت میں بنے ہیں لیکن ملکی وے کہکشاں کی ثقلی قوت نے انہیں باریک باریک دانوں کی طر ح بکھیردیا ہے ۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ ستاروں کا یہ دریا اپنی پیدائش کے بعد سے اب تک ہماری کہکشاں کے گرد چار چکر مکمل کرچکا ہے ۔ علاوہ ازیں اس پر مزید تحقیق کرکے ہم اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے کے ثقلی اثرات اور ستاروں پر اس کے اثرات کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں ۔
نیپچون میں سب سے چھوٹے چاند کی دریافت
رواں سال ماہرین فلکیات نے سیارہ نیپچون کے گرد زیر گردش چاند کا انکشاف کیا ہے اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ چاند ہمارے پورے نظام شمسی کا سب سے چھوٹا چاند ہے ،جس کا قطر صرف 21 میل یا 34 کلو میٹر ہے ۔اس چاند کو ’’ہیپو کیمپ‘‘کا نام دیا گیا ہے ۔
یہ چاند اتنا مہین ہے کہ 1989 ء میں وائجر خلائی جہاز نے بھی اسے نظر انداز کر دیا تھا ۔سرچ فار ایکسٹرئیل انٹیلی جنس (سیٹی)کے ماہر مارک شووالٹر کے مطابق اسے دیکھنا بہت محال تھا اور دوسری بات یہ کہ یہ نیپچون کے بہت قریب ہے ۔
2019 میں متعارف ہونے والے جدت سے بھر پور روبوٹس
پانی کی طرح ہیئت تبدیل کرنے والا روبوٹس
رواں سال انجینئرنگ کمپنی کے دو ماہرین نے ایک روبوٹ تیار کیا ہے جو پانی کی طر ح اپنی ہئیت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ یہ انسانی خون میں تیرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔اس روبوٹ کو بیکٹیریا کی شکل کا بنایا گیاہے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں تیرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں یہ اردگرد کے ماحول کے مطابق اپنی شکل بھی تبدیل کر لیتا ہے۔
یہاں تک کہ اپنی رفتار کم کیے بغیر خون کی نالیوں میں بھی سفر کر سکتے ہیں۔ اس روبوٹ میں ایسا انٹیلی جنس پروگرام مرتب کیا ہے ،جس کی مدد سے یہ روبوٹ پانی اور خون دونوں میں تیر سکتے ہیں اور اپنے فرائض کی درست طر یقے سے انجام دہی بھی کر سکتے ہیں ،جس کے باعث طب کی دنیا میں اسے انقلاب تصور کیا جا رہا ہے۔ماہرین نےاس روبوٹ کو جسم میں دوا کی ترسیل ،جراحت اور پیچیدہ زخموں کو بھرنے میں اہم ایجادقرار دیا ہے ۔
دیواریں بنانے والا روبوٹ
ہاروڈیونیورسٹی میں واقع وائس ٹیوٹ کے ماہرین نے 2019 ء میں ایک ایسا معمار روبوٹ بنایا ہے جو ازخود دھاتی چادروں سے کسی بھی نرم جگہ یعنی ساحلی ریت پر بھی دھاتی بلاک سے دیواریں بنا سکتا ہے ،جس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور ایک مضبوط دیوار قائم ہو جاتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق اس طر ح یہ روبوٹ انسانی مداخلت کے بغیر سیلابی پشتے ،حفاظتی دیواریں اور زمین کو کٹائو سے بچانے والی رکاوٹیں بناسکتے ہیں ۔اس کے علاوہ یہ پانی کے ذخائر کی تعمیر میں بھی مددگار ہوسکتے ہیں ۔
تعمیر میں دھاتی پلیٹیں غیر ہموار اور ڈھلوانی سطح پر بھی لگائی جاسکتی ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ دیگر کاموں میں بھی مٹی کے پھسلائوکو روکنے میں یہ روبوٹ اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنےہی وزن کی بنیاد پر بھاری دھاتی شیٹوں کو مٹی میں دھنساتا جاتا ہے ،جس میں اس کے چار پہیے ایکچو ایٹر کاکام کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی ارتعاشات سے دھاتی پلیٹیں اندر دھنستی جاتی ہیںچاہیے ان کی لمبائی روبوٹ سےا ونچی ہی کیوں نہ ہو ۔ماہرین کو اُمید ہے کہ مستقبل میں یہ روبوٹ بہت کار آمد ثابت ہو گا ۔
پلیٹیں دھونے والا روبوٹ
ڈش کر افٹ نامی کمپنی نے رواں سال برتن دھونے والا خود کار روبوٹ بنایا ہے جو بہت تیزی سے سیکڑوں پلیٹیں دھو کر صاف کر دیتا ہے ۔یہ روبوٹ فی الحال ایسے پیالوں اور پلیٹوں کو دھوتا ہے جن سے کوئی دھات منسلک ہوتی ہے ۔ماہرین کے مطابق مستقبل میں وہ دیگر اقسام کے دوسرے برتن دھونے کے قابل ہوسکے گا ۔جب پلیٹیں ایک خاص تعداد تک پہنچ جاتی ہیں تو روبوٹ انہیں ایک ڈش واشر مشین میں پہنچا دیتا ہے ۔
یہ مقناطیس کی مدد سے پلیٹیں اُٹھاتا ہے اور ربڑ کے ٹکڑے سے بچا کچھا کھانا صاف کرتا ہے ،پھر کیمرے اور سینسر کے ذریعے وہ پلیٹوں کو پانی سے دھو کر صاف کرتاہے اور اس پوری عمل میں ری سائیکل پانی استعمال کیا جاتا ہے ۔اس کے بعد عملہ جراثیم کش مائع سے پلیٹوں کو مزید صاف کردیتا ہے ۔ماہرین کو اُمید ہے کہ ریستوران کی صنعت اس ٹیکنالوجی سے بھر پور فائدہ اُٹھا ئے گی ۔
چار پروں والا اُڑن کیڑا روبوٹ
اس سال امریکی ماہرین نے حال ہی میں دنیا کا سب سے چھوٹا اور ہلکا ترین اُڑن روبوٹ بنایا ہے ،یہ بغیر تار کے خود مختارانداز میں پرواز کرتا ہے ۔اسے ہارورڈ یونیورسٹی میں قائم مائیکرو روبوٹکس تجربہ گاہ کے ماہرین نے تیار کیا ہے ۔اس کا وزن صرف 259 ملی گرام ہے ۔اس میں دو پیزو ایکچو ایٹرز نصب کیے گئے ہیں ۔اتنا زیادہ باریک ہونے کے باوجود یہ سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کر کے پرواز کرتا ہے ۔
اسے ’’روبوبی ‘‘ ایکس کا نام دیا گیا ہے ۔یہ 1 سیکنڈ میں 170 مرتبہ اپنے پر پھڑ پھڑ اتا ہے ۔اس کے پیروں کا گھیر صرف 3.5 سینٹی میٹر اور روبوٹ کیڑے کی اونچائی 6.5 سینٹی میٹر ہے ۔ماہر ین کے مطابق بازوئوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ان میں دو عدد ایسی پلیٹیں لگائی گئی ہیںجو پٹھے کا کام کرتی ہیں ۔جب ان پٹھوں میں بجلی دوڑتی ہے تو پلیٹیں پھیلتی اور سکڑتی ہیں ۔ا س روبوٹ کے اوپر 6 عدد شمسی سیل نصب کیے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک کا وزن 10 ملی گرام ہے ۔
شمسی سیل پروں کے اوپر لگے ہیں لیکن وہ روبوٹ کی پرواز میں کسی بھی طر ح کا خلل نہیں ڈالتے ، جیسے ہی روبوٹ پر روشنی پڑتی ہے، اس کے پر پھڑپھڑانے لگتے ہیں اور یوں روبوٹ مکھی اُڑنے لگتی ہے ۔ اس روبوٹ کو فضائی تحقیق، کونے کھدروں میں انسانوں کی تلاش اور دیگر بہت سے کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ ایک چھوٹے پتے پر بھی اترسکتا ہے ۔ اگلے مرحلے میں روبوٹ مکھی کو مزید بہتر بنا کر اسےسورج کی روشنی میں پرواز کے قابل بنایا جائے گا۔
جیلی فِش‘‘ روبوٹ
2019ء میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے ماہر ڈاکٹر میٹن سٹی اور ان کی ٹیم نے ایک چھوٹا’’ جیلی فش ‘‘روبوٹ تیار کیا ہے۔ یہ روبوٹ اشیاء کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ لے جانے ،مائعات کو ملانےا ور خود کو دفنانے کا کام بھی کرتا ہے۔تار کے بغیر کام کرنے والے اس روبوٹ کی جسامت 5 ملی میٹر ہے ۔ جرمنی کے ماہرین نےیہ روبوٹ ایک عام جیلی فش کے بچوں سے متاثر ہوکر بنایا ہے ۔ بہت ہی چھوٹا اور سادہ ساخت ہونے کے باوجود یہ بہت سارے کام انجام دے سکتا ہے ۔
اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مائعات کے بہائو کو کنٹرول کرتے ہوئےپیچیدہ عمل انجام دیتا ہے ۔ماہرین کوشش کررہے ہیں کہ وہ اس کے ذریعے سمندروں کی بدلتی ہوئی کیفیات ،آلودگی ،درجہ ٔ حرارت اور دیگر کیفیات میں اس مخلوق کا بر تائو اور دیگر صلاحیتوں کو سمجھ سکیں ۔ماہرین کے مطابق جیلی فش روبوٹ کو کنٹرول کرنے اور چلانے کے لیے اس پر مقناطیسی ذرات نصب کیے گئے ہیں جو کہ بیرونی مقناطیسی میدان کے زیر اثر تھرتھراتے بھی ہیں ۔