غریب، پسماندہ اور انتہائی قلیل آمدنی والے طبقے بالخصوص خواتین کو مالی مدد فراہم کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کی حکومت کا 2008میں شروع کیا گیا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک مستحسن فیصلہ تھا، جسے بعدمیں آنے والی حکومتوں نے بھی جاری رکھا، پروگرام کے تحت مفلس و نادار خاندانوں کی خواتین کو پندرہ روز بعد یا ماہانہ بنیادوں پر کچھ رقم دی جاتی، ملک کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر تک پھیلے اس پروگرام سے لگ بھگ پچپن لاکھ خاندان مستفید ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں، بیشتر خاندان اس اعانت کا 70فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔یہ پروگرام بھی اپنی نوعیت کے ہر منصوبے کی طرح تنقید اور شکوک وشبہات کی زد میں ضرور رہا تاہم اس کی افادیت کے پیش نظر اسے جاری رکھا گیا۔اب کابینہ کے فیصلے کے بعد چیئرمین بی آئی ایس پی ثانیہ نشتر نے 8لاکھ افراد کو اس پروگرام سے نکالنے کی وجوہات بتائیںاور کہا کہ اُن میں ایسے افراد شامل ہیں جنہوں نے ایک یا ایک سے زائد مرتبہ بیرونِ ملک سفر کیا، جن کے نام ایک یا اس سے زائد موٹر سائیکل یا گاڑی رجسٹرڈ ہے، جن کا ماہانہ موبائل یا ٹیلی فون بل ایک ہزار روپے سے زیادہ ہے، جن کے خاندان کے ایک یا اس سے زائد افراد نے ایگزیکٹو فیس دے کر شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنوائے، جو سرکاری یا خود بی آئی ایس پی کے ملازم ہیں۔اُنہیںنکالا گیا اور ان کی جگہ حقیقی معنوں میں مستحق افراد کو شامل کیا جائے گا اور ان افراد کی جانچ پڑتال اور نشاندہی نادرا ڈیٹا بیس کی مدد سے کی جائے گی۔ اگرچہ حکومتی اقدام پر سیاسی مخاصمت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے لیکن جن وجوہ کی بنا پر یہ قدم اٹھایا گیا وہ ہر الزام کی نفی کرنے کو کافی ہے۔ حکومت کو اس حوالےسے البتہ دائرہ کار، نادرا کے ڈیٹا بیس کے تحت ہی وسیع کرنا ہو گا کہ ملک میں ناداروں کی کمی نہیں، جن کی مشکلات دور کرنا اس کا فرض ہے۔