• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI)کے بزنس مینوں کے وفد کا دورہ مراکش اور ’’بریانی فیسٹیول‘‘ کے بارے میں بتایا تھا۔ مراکش کے دورے میں جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ مراکش اور افریقہ کی سب سے بڑی پورٹ تنجیر میڈ کا دورہ تھا جو مراکش کی وزارت خارجہ نے خصوصی طور پر ہمارے وفد کیلئے تشکیل دیا تھا۔ دورے کے چوتھے دن میں، میرے بھائی مراکش کے اعزازی قونصل جنرل اشتیاق بیگ، مراکش میں پاکستان کے سفیر حامد اصغر خان، پاکستانی سفارتخانے میں دفاعی اتاشی بریگیڈیئر طلحہ اور وفد کے 25اراکین کے ساتھ مراکش کی تیز ترین ٹرین ’’البراق‘‘ جس کی رفتار 350کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد ہے، سے ایک گھنٹے میں رباط سے تنجیر پہنچے۔

تنجیر، کاسا بلانکا اور رباط کے بعد مراکش کا تیسرا بڑا جبکہ کاسا بلانکا کے بعد دوسرا بڑا صنعتی شہر ہے جس میں 4انڈسٹریل پارک ہیں جن میں سے 2اکنامک فری زونز ہیں۔ تنجیر کی معیشت کا دارومدار سیاحت اور صنعت پر ہے۔ تنجیر میڈ پورٹ کا شمار افریقہ کے سب سے بڑے اور دنیا کے 20سرفہرست پورٹس میں ہوتا ہے۔ یہ پورٹ 9ملین کنٹینرز، 7ملین مسافر، 7لاکھ ٹرک اور دو ملین گاڑیاں ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پورٹ کی تکمیل پر اربوں ڈالر لاگت آئی ہے جس کے بعد تنجیر شہر میں ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور آج تنجیر ایک ماڈرن اور خوبصورت شہر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ تنجیر میں بحراٹلانٹک اور میڈیٹرین اسپائرل کے مقام پر ملتے ہیں جہاں پانی کے دو مختلف رنگ دیکھے جاسکتے ہیں جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی کیا گیا ہے۔ تنجیر میں ہرکولیس غار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ سینکڑوں سال قبل یہاں ہرکولیس رہائش پذیر تھا۔ سمندر کی جانب کھلنے والے غار کے دہانے نے سینکڑوں برسوں میں پانی سے کٹائو کے باعث افریقہ کے نقشے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ تنجیر سے واپسی سے پہلے سفیر پاکستان نے خصوصی طور پر وفد کے ارکان کو تنجیر کورنیش کے دورے کی دعوت دی جو سیاحوں کیلئے نہایت کشش جگہ ہے جہاں سے اسپین باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ دنیا کے مشہور سیاح ابن بطوطہ جس کا اصلی نام محمد بن عبداللہ تھا، کا تعلق بھی تنجیر سے تھا جو 21سال کی عمر میں دنیا کے سفر پر روانہ ہوگیا اور 27سال دنیا کی سیاحت میں گزارے جس میں اس کا سندھ، پاک پتن اور ملتان کا دورہ بھی شامل ہے۔ تنجیر میں ابن بطوطہ کی قبر ایک چھوٹے سے کمرے میں ہے۔ فرانس اور یورپ کے دیگر شہروں میں مراکش نژاد باشندوں کی بڑی تعداد مقیم ہے جو گرمیوں کی چھٹیوں میں فیری کے ذریعے تنجیر آتے ہیں جس کی وجہ سے گرمی کی چھٹیوں میں تنجیر پورٹ پر نہایت گہما گہمی نظر آتی ہے۔ تنجیر سے صرف 20منٹ فیری کے ذریعے سفر کرکے اسپین پہنچا جاسکتا ہے۔ اسپین سے ملحق جبرالٹر (جبل الطارق) وہ مقام ہے جہاں طارق بن زیاد نے اپنی کشتیاں جلاکر تاریخی تقریر کی تھی اور طارق بن زیاد کی فتوحات کے نتیجے میں اندلس جو آج اسپین اور پرتگال پر مشتمل ہے، پر مسلمانوں نے تقریباً 800سال تک حکمرانی کی۔ آزادی کی تحریک میں پاکستان نے مراکش کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ 1952میں جب مراکش کے شاہ محمد پنجم کی طرف سے بھیجے گئے تحریک آزادی کے سرگرم لیڈر احمد عبدالسلام بلفرج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مراکش کی آزادی کے حق میں تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو احمد بلفرج کو بولنے کی اجازت نہیںدی گئی۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے راتوں رات نیویارک میں پاکستانی سفارتخانہ کھلوا کر احمد بلفرج کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا۔ اس طرح اگلے روز احمد بلفرج نے پاکستانی چیئر سے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرکے مراکش کی فرانس سے آزادی کی آواز بلند کی اور بالاخر 19نومبر 1956کو مراکش، فرانس کے تسلط سے آزاد ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مراکش کے لوگ پاکستانیوں سے بہت محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔

تنجیر کے دورے میں ہمیں دنیا کی چوتھی بڑی تنجیر میڈ پورٹ اور کنٹینر ٹرمینل کے معائنے کا موقع ملا جہاں نہایت جدید ایکسپورٹ پروسیسنگ زون قائم ہے جس میں یورپ کی معروف رینو، پیجو اور اسٹرون کی بڑی بڑی مینوفیکچرنگ اور دیگر فیکٹریز ہیں۔ ہمارے سامنے گاڑیاں قطار سے جہازوں میں یورپ جانے کیلئے لوڈ ہورہی تھیں۔ مجھے بتایا گیا کہ تنجیر میں 2013میں فرانس کی معروف کارساز کمپنی نے ایک لاکھ گاڑیاں سالانہ بنانا شروع کیا تھا جو بڑھ کر اب 4لاکھ گاڑیاں سالانہ ہوچکی ہیں جو مراکش سے فرانس، جرمنی اور ترکی ایکسپورٹ کی جاتی ہیں اور تنجیر ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی سالانہ ایکسپورٹ 8.3بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔تنجیر اکنامک فری زون میں نہایت جدید انفرااسٹرکچر قائم ہے جبکہ پورٹ کے توسیع پروگرام میں ایک نیا ایئرپورٹ، 45ہزار شائقین کیلئے فٹ بال اسٹیڈیم اور نیا ٹرین اسٹیشن ’’تنجیر ویلی‘‘ شامل ہیں۔ تنجیر پورٹ پر ہمیں پریذنٹیشن دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پورٹ کی کنٹینر ہینڈلنگ کی استطاعت 3.5ملین کنٹینرز سے بڑھ کر اب 9ملین کنٹینرز ہوچکی ہیں۔ مراکش میں بیرونی سرمایہ کاری کی اہم وجہ اس کا یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ (FTA)ہے جس کے تحت مراکش سے یورپی یونین اور امریکہ کو ڈیوٹی فری مصنوعات ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مراکش میں گارمنٹس انڈسٹری تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ میں نے حالیہ دورہ مراکش میں پاکستان اور مراکش کے مابین ترجیحی تجارتی معاہدہ (PTA)سائن کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ میں نے ممبرز پارلیمنٹ کو بتایا کہ پاکستان اور مراکش میں حکومتی سطح پر مشترکہ وزارتی کمیشن کا اجلاس 11سال سے نہیں ہو سکا ہے۔ آخری اجلاس پی پی کی حکومت میں ہوا تھا جس کی سربراہی اس وقت کے وزیر صنعت نے کی تھی جبکہ میں نے اجلاس میں پرائیویٹ سیکٹر اور ایف پی سی سی آئی کی نمائندگی کی تھی۔

مراکش سے ہمارا دیرینہ تعلق ہے اور مراکش میں ہمارے بزنس کو تقریباً 30سال ہوچکے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بینظیر دور حکومت میں 1984میں، میں اس وقت کے وزیر تجارت احمد مختار کے ساتھ ایک وفد کے ہمراہ WTOمعاہدے پر دستخط کرنے مراکش آیا تھا جس میں اس وقت کے مراکش کے بادشاہ حسن دوئم مہمان خصوصی تھے جبکہ ان کیساتھ موجودہ بادشاہ محمد ششم ولی عہد کی حیثیت سے شریک تھے اور اس عرصے میں، میں نے مراکش میں حیرت انگیز ترقی دیکھی جس کا سہرا مراکش کے بادشاہ محمد ششم اور ان کی ویژن کو جاتا ہے۔

تازہ ترین