مغلیہ دور میں سندھ کی ایک بہت عظیم شخصیت شاہ عنایت شہید کو ٹھٹہ سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر جھوک شریف کے مقام پر ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ شہید کردیا گیا تھا. شاہ عنایت ہندوستان کے عالم بزرگ عبدالمالک سے حیدرآباد دکن سے تصوف کی تعلیم حاصل کرکے واپس جھوک آئے تھے. شاہ عنایت پنج گانہ نمازی پرہیزگار اور متقی تھے۔
ان کے پاس درس و تدریس کی اولیت تھی. ان کا کوئی ایک بیان سنتا تھا تو گرویدہ بن جاتا تھا. یہی وجہ ہے کہ دن بدن ان کے مریدوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہیں سندھ کا مصلحِ اول بھی کہا جاتا ہے ، وہ مغلیہ دور کے ایک صوفی بزرگ تھے۔ان کے والدکا نام مخدوم صدو لانگاہ تھا۔
سندھ کے یہ عظیم سپوت 1655ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ مذہبی تعلیم مشہور صوفی بزرگ شاہ شمس سے حاصل کرنے کے بعدانہوں نے بغداد، خراسان، قندھار اور پھر ہندوستان کا رخ کیا۔اس دوران شاہ عنایت شہید نے عالم اسلام کے بڑے بڑے علماء سے تصوف سمیت دین کے تمام علوم کو پڑھا اور سمجھا۔ بعد میں انہوں نے سندھ کے علاقے جھوک شریف کو اپنا مسکن بنایا۔
شاہ عنایت شہید نے جس وقت جھوک شریف میں تعلیم، تبلیغ اور شعور کی تدریس شروع کی، اس وقت سندھ کے سینکڑوں لوگ اپنے روایتی پیروں مرشدوں سے واسطہ توڑ کر، حق کی بات کرنے والے انسان اور برابری کا درس دینے والے بزرگ کے پاس آنے لگے۔ انہوں نے سبق سکھایا کہ مساوات محمدی میں سب انسان ایک جیسے ہیں، جس کی بنیاد پر کھتی باڑی اجتماعی طور کی جائے، پیداواری عمل میں تمام افراد یا حصہ دار برابر ہیں۔ تمام افراد کا منافع بھی ضرورت کے مطابق ہوگا اور اس کی تقسیم بھی برابر ہوگی، کیونکہ "جو ہل چلائے گا وہ اناج کھائے گا"یا " جو کھیڑے سو کھائے"کا نعرہ لگایا یعنی جو کھیتی باڑی کرے گا، وہ اس کے پھل کا حقدار ہوگا۔
اس دور میں سندھ پر وڈیروں جاگیرداروں اور مغلوں کے مقرر کردہ امیروں کی حکمت قائم تھی. ۔ٹھٹہ کا امیر نواب اعظم خان تھا جو مغلوں کی خوشامد میں رعایا پر ظلم و ستم نمایاں تھا مگر آج سندھ کی تاریخ میں اسے بدترین الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔
شاہ عنایت شہید کے فکر و فلسفے کی وجہ سے زمینداروں اور جایگرداروں کے خلاف بغاوت کی فضا پیدا ہوگئی اور جن ہاریوں کی نسلیں کئی سالوں سے فقط دو وقت کے کھانے کی شرط پر کھیتی باڑی کرتی تھی ان میں شعور اجاگر ہوگیا اوروہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
اس وقت عوام اور حکومت کے درمیان ایک بڑا اختلاف واضح طور پہ پایا جاتا تھا کہ حکومت عوام کے حقوق کا کوئی خیال نہیں کرتی تھی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ حکومت عوام پہ زور زبردستی کرتی تھی، جس پر شاہ عنایت شہید نے آواز بلند کی.\جب ہاری کو یہ شعورملا کہ وہ کھیتی باڑی کرکے اپنا حصہ اپنے حق کے طور حاصل کرتا ہے اور جاگیردار ہاری کا مالک نہیں ہوتا بلکہ زمین کو زرخیز بنانے والا وہ خودہوتا ہے۔ تب جاگیردار کی غلامی کے خلاف وہ ایک طاقت بن کر سامنے آئے۔
شاہ عنایت شہید کا یہ سبق ان کی درسگاہ سےکی حدود سے نکل کر سورج کی روشنی کی طرح تیزی سے پوری سندھ میں پھیل گیا اور یہ شعور ایک تحریک بن کر عوامی طاقت کی صورت میں ابھرنے گا۔ شاہ عنایت کی تعلیمی سرپرستی کی وجہ سے ان کے طالب علم بھی عالم فاضل بن رہے تھے لہٰذا علاقے کے زمیندار، وڈیرے اور کلہوڑہ و مغل حکمرانوں کے امیر، وزیر، مشیر اور قاضی اس تحریک کو کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے مذہبی اور عدالتی آڑ میں سہارا بھی لیا مگر جب ہر صورت میں ناکام ہوگئے تب مخالفین نےسازشی انداز اپنایا۔
سندھ کے نامور صحافی و ادیب شیخ عزیز نے شاہ عنایت کو اپنے تحقیقی مضمون میں سندھ کے پہلے سوشلسٹ قرار دیا ہے۔ سندھ کی اس عظیم شخصیت پہ جامع تحقیقی مقالہ لکھنے والے، ادیب، شاعر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد علی مانجھی نے اپنی تحقیق میں یہ بھی بتایا ہے کہ شاہ عنایت شہید سندھی زبان سمیت عربی، فارسی، ہندی، گرمکھی زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے سر کو ٹوپی سے ڈھانپے رکھا۔ نماز، روزہ،ذکر و اذکار کے پابند تھے یہی سبب ہے کہ آج بھی ان کے پیروکار جھوک شریف میں ان کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
شاہ عنایت 1718ء میں سازشی عناصر کے ہاتھوں کس طرح شہید ہوئے۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ وہ ہاریوں کے ساتھ اپنی جدوجہد میں چلتے رہے مگر یہ بات جاگیرداروں کو برداشت نہ ہوئی اور انہوں نے شاہ عنایت کو سختی سے روکنے کے لئے ان کے مریدوں اور فقیروں کو قتل کردیا جس کے رد عمل میں شاہ عنایت کی تحریک کو تقویت ملی۔ ان کے ہمدردوں کی تعداد بڑھتی گئی۔
اس وقت ہندوستان پر مغلوں کی حکومت تھ۔ انہوں نے سازش کے تحت اپنا ایک نمائندے، میر شہداد تالپور کو شاہ عنایت کے پاس بھیجا جس نے قرآن پاک کو بیچ میں رکھ کر صلح کا وعدہ کیا.۔لیکن اسی روز ان کی جھوک شریف کی خانقاہ ہ پر شب خون مارا گیا اور شاہ عنایت 17 صفر 1130 ھ, 8 جنوری 1718ء کو اپنے 24 ہزار ساتھیوں کے ساتھ شہید کردئے گئے۔ جو مقام ان کی جائے شہادت بنا، اس جگہ کو گنج شہیداں کہا جاتا ہے۔
افسوس کہ اس زمانے کے بڑے بڑے شعراء نے بھی اتنے بڑے واقعے کو بیان کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا مگر تاریخ گواہ ہے کہ اس سچائی کو کوئی بھی نہیں چھپا سکا۔شاہ عنایت شہید صرف درویش طریقت نہ تھے بلکہ انہوں نے مریدین کی فکری رہنمائی بھی کی ۔ انہیں دوران تربیت سماجی، ثقافتی اور سیاسی شعور دیا۔
اجتماعی کاشت کاری کی سمت راغب کیا اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کی تربیت دی۔ صوفی شاہ عنایت نے اجتماعی کاشت کاری اور منصفانہ طریقے سے تقسیم کا عمل شروع کیا تو ان کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا آپ کے مرید اور عزیز و اقارب نیز اطراف کے پیروں کے مرید بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے۔
کہتے ہیں اس دور میں فصل اترنے پر سب کو ضرورت کے مطابق وافرمقڈار میں اناج تقسیم کیا جاتا تھا اور باقی بچنے والا مال اجتماعی ملکیت قرار پاتاتھا۔ زمین، زرعی آلات اور مویشی کسی کی نجی ملکیت نہ تھے سب صوفی جماعت کی مشترکہ ملکیت کہلاتے تھے۔ان کے انقلابی نظریات حکمرانوں کو ناپسند گزرتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں ان کے ساتھیوں سمیت شہید کردیا گیا۔ وہ خود تو دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا فلسفہ حیات آج بھی زندہ ہے اور کاشت کاروں کی رہنمائی کررہا ہے۔