• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو2019ء میں مُلک مختلف بحرانوں میں گِھرا رہا، مگر مسلّح افواج متعدد کام یابیاں سمیٹنے اور مُلک کو دفاعی طور پر مزید مضبوط بنانے میں کام یاب رہیں۔گرچہ مُلک بھر میں فائرنگ اور خودکُش حملوں کے کچھ واقعات تو ضرور رُونما ہوئے۔ تاہم، مجموعی طور پر دہشت گردی کے واقعات میں خاصی کمی واقع ہوئی ۔پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام برق رفتاری سے جاری رہا، جس کے دوران کئی افسران اور جوانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے اور اب یہ کام مکمل ہونے کے قریب ہے۔ 

یاد رہےکہ پہلے سرحد پار سے پاک فوج کی چوکیوں پر تسلسل سے حملے کیے جاتے تھے، مگر باڑ کی تنصیب سے ان حملوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ پاک فوج کی جانب سےبلوچستان کے پس ماندہ اور دُور دراز علاقوں میں تعلیم وطبّ کی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر کا کام بھی کیا گیا ،اسی طرح دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران علاقہ بدر ہونے والےقبائلی عوام کی آباد کاری کے لیے بھی بہت سے ترقّیاتی منصوبے شروع ہوئے،جن میںسڑکوں، تباہ شدہ گھروں ، پُلوں اوراسکولز کی تعمیرکا کام شامل ہے۔ان میںسے کچھ منصوبےتومکمل ہو چُکے ہیں اور کچھ تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔

سالِ گزشتہ کا آغاز، پاکستان، افواجِ پاکستان، بالخصوص پاک فضائیہ کے لیے انتہائی شان داررہاکہ اس نے بھارتی فضائیہ کو چاروں شانے چِت کرکے دنیا بھر میں اپنی صلاحیّتوں کا لوہا منوالیا۔واضح رہے کہ25اور 26فروری 2019ء کی درمیانی شب بھارتی ایئر فورس کے طیاروں نے مظفّرآباد سیکٹر میں آزاد کشمیر کی حدود کی خلاف ورزی کی ، جس پر پاک فضائیہ نے بروقت ایکشن لیا، نتیجتاًبھارتی طیارے بدحواسی کے عالم میں بالاکوٹ کے قریب اپنا پے لوڈ (گولہ بارود)گرا کر فرار ہوگئے ۔

تاہم،’’ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے کے مصداق ‘‘، ’’بھارتی سورماؤں ‘‘ نے 27فروری کی صبح ایک بار پھر دو مختلف سیکٹرز میں کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی اور آزاد کشمیر اور پاکستانی حدود میں گُھس کر حملے کی کوشش کی، تو جوابی کارروائی میں پاک فضائیہ کے شاہینوں، وِنگ کمانڈر نعمان خان اور اسکواڈرن لیڈر حسن صدّیقی نے بھارتی طیاروں کو مار گرایا، جن میں سے ایک طیارہ پاکستانی حدود میں اور دوسرا بھارتی حدود میں جاگرا، کہا جاتا ہے کہ دوسرا طیارہ اسرائیلی پائلٹ اُڑا رہا تھا۔ تاہم،اس بارے میں کوئی حکومتی بیان سامنے نہیں آیا۔ جب کہ پاکستانی حدود میں گرنے والے طیارے کے پائلٹ، وِنگ کمانڈر، ابھے نندن کو زندہ گرفتار کر لیا گیا، جسے بعدازاں جذبۂ خیر سگالی کے تحت رہا کردیا گیا۔ 

یہاں قابلِ ذکر و فخر بات یہ ہے کہ پاکستانی ہوا بازوں نے جن طیاروں(جے ایف 17تھنڈر) کے ذریعے بھارتی طیارے گرائے ، وہ چین کے تعاون سے پاکستان ایرو ناٹیکل کمپلیکس ہی میں تیار کیے جاتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد دنیا نے نہ صرف پاک فضائیہ کی مہارت کو تسلیم کیا، بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی فضائی نمائشوں میں جے ایف 17 تھنڈرکی مانگ میں بھی بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 

فروری 2019ء کے واقعے کے بعد پاکستان نے نہ صرف بھارت، بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ بھارت کی عددی برتری کے باوجود، پاک فضائیہ کسی بھی حملے کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت گرچہ فرانس سے جدید رافیل طیارے خرید رہا ہے، مگر اس کے ہوابازوں میں نہ وہ مہارت ہے، نہ ہی جذبہ ، جو پاکستانی فضائیہ کا خاصّہ ہے۔ 

پاک فضائیہ ، ائیر مارشل مجاہد انور کی سربراہی میں تیزی سے ترقّی کی منازل طے کر رہی ہے، اس نے فرانسیسی میراج5- طیاروں کو بھی جدید بم بار طیاروں میں تبدیل کر کے، انہیں جدید آلات سے لیس کردیا ہے۔پاک فضائیہ ہی کی طرح ،سالِ رفتہ پاک بحریہ کے لیے بھی کام یابیوں کا سال ثابت ہوا۔4 مارچ 2019ء کو پاک بحریہ نے اپنے سمندری زون میں موجود بھارتی آب دوز کا سُراغ لگاکر اُسے پاکستان کے پانیوں میں داخل ہونے سے روک دیا۔گوکہ بھارتی آب دوز نے اپنی موجودگی کو خفیہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ 

تاہم، پاک بحریہ کے جوانوں کی عقابی آنکھوں اورمستعدی سے نہ بچ پائی۔پاک بحریہ کا بھارت کی جدید ترین اسکارپین کلاس آب دوز کا سُراغ لگانا، ہماری نیوی کی قابلِ ذکر کام یابی ہے۔ پاک بحریہ چاہتی ، تو اس آب دوز کو تباہ بھی کر سکتی تھی۔ تاہم، امن قائم رکھنے کی حکومتی پالیسی کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے، ایسا نہیں کیا گیااور یہ امر پاکستان کی امن پسندی کا غمّاز ہے۔سالِ گزشتہ،ماہِ اپریل میںپاک بحریہ نے میزائل فائرنگ کا کام یاب مظاہرہ کیا۔

فاسٹ اٹیک کرافٹ، بحری جہاز کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ خشکی پر اپنے ہدف کو کام یابی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ستمبر میں پاک بحریہ کی جنگی مشق ’’رباط‘‘ کا بھی انعقاد ہوا۔ جس کا مقصد آپریشنل حکمتِ عملی کی جانچ اور مشترکہ آپریشن کی صلاحیّتوں کو بڑھاناتھا ۔مشق میں پاک بحریہ کی تمام فیلڈ کمانڈ سمیت ،پاکستان ایئر فورس نےبھی حصّہ لیا۔  جنگی مشق بحری دفاع کو یقینی بنانےکے لیے پاک بحریہ کی تیاریوں کے اعلیٰ معیار و جنگی صلاحیتوں کے عزم کا ثبوت ہے۔ مشق کے دوران بحری اور ہوائی جہازوں سے میزائل فائرنگ کا کام یاب مظاہرہ بھی کیا گیا۔ 

نیول چیف نے میزائل فائرنگ کا مشاہدہ کیا اور پاک بحریہ کی آپریشنل تیاریوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ دشمن کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔پاکستان نیوی ،وطن کی بحری سرحدوں کے دفاع کے لیےہمہ وقت تیار ہے۔‘‘ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاک بحریہ کو جدید بنانے میں چِین کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ 

اس نے جدید ہتھیاروں اور میزائلز سے لیس ایٹمی آب دوز دی ہے ،جو تین سال تک سطحِ سمندر میں رہ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ چِین کی مدد سے پاکستان اپنی ایٹمی آب دوز بھی تیار کر رہا ہے۔پاکستان نے پاک بھارت سرحد پر فضائی اور زمینی حدود کی حفاظت کے لیےچینی ساختہ،ایئر ڈیفینس سسٹم بھی نصب کیاہے، تاکہ بھارت کے کسی بھی جہاز کی آمد کا پیشگی پتا لگایا جا سکے۔یوںجنگی تیاریوں اور مُلک کے دفاع کے حوالے سے 2019ء انتہائی اہم سال رہا ۔

2019ء کے اواخر میں پاک فوج کے حوالے سے عدلیہ کے تاریخی فیصلےبھی سامنے آئے۔پہلا فیصلہ ،چیف آف آرمی اسٹاف ،جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کے حوالے سےتھا۔یاد رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو 29نومبر2019 ء کو ریٹائر ہونا تھا، مگروزیرِاعظم عمران خان نے ان کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل ہی ان کی مدّتِ ملازمت میں تین برس کی توسیع کا اعلان کردیا۔ 

تاہم، توسیع کے حوالے سے آئینی کارروائی مکمل نہ تھی، لہٰذااس کے خلاف ، جیورسٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک درخواست دائر کی گئی۔تاہم، سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار ،ریاض حنیف راہی پیش نہ ہوئے اور ان کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی ، مگرعدالت نے اسے مفادِ عامہ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کیس کو از خود نوٹس میں تبدیل کر دیا۔ چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے معاملے کی ابتدائی سماعت کے بعد ایکسٹینشن کا حکم نامہ معطّل کرتے ہوئے جنرل باجوہ سمیت فریقین کو نوٹسزجاری کیے۔

ذرایع کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے مُلکی مفاد کے پیشِ نظر ہی یہ توسیع قبول کی تھی۔تاہم، بعد ازاں، سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدّت ِ ملازمت میںچھے ماہ کی مشروط توسیع کی منظوری دے دی (جس کا اطلاق جمعرات 28نومبر سے ہوا، نئی قانون سازی 28مئی 2020ء تک کرنا ہو گی)اورحکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس چھے ماہ کےعرصے میں آئین کے تحت آرمی چیف کی مدّتِ ملازمت کے تعیّن، توسیع، دوبارہ تقرّری اور دیگر معاملات کے تعیّن کے لیے قانون سازی کرے ،عدالت 6ماہ بعد قانون سازی کا جائزہ لے گی اور اس وقت تک جنرل باجوہ ہی اس عہدے پر فرائض انجام دیں گے۔ جب تک آرمی چیف کی مدّت میں توسیع کا کیس سپریم کورٹ میں چلتا رہا، بھارتی میڈیا میں شادیانے بجتے رہے ۔ 

جب کہ دوسرااہم ترین اور پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے سابق آرمی چیف ، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرّف کی سزائے موت کی صُورت دیکھنے میں آیا،یہ فیصلہ آئین شکنی کے جرم میں دیا گیا۔جس کے جواب میںڈی جی، انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے پریس کانفرنس کی ، جس میںفیصلے کی شدید الفاظ میں مذمّت کی گئی۔

2019ء میں پاک فوج میں اہم تبادلےبھی دیکھنے میں آئے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، جنرل زبیر محمود حیات ریٹائر ہوگئے ، اُن کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل، ندیم رضا کو جنرل کے عہدے پر ترقّی دے کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرّر کیا گیا۔ اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو کور کمانڈر گوجرانوالہ تعیّنات کرکے، اُن کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کوڈی جی، آئی ایس آئی مقرّر کر دیا گیا۔ کور کمانڈر کوئٹہ، لیفٹیننٹ جنرل، عاصم سلیم باجوہ ریٹائر ہوگئے اور انہیں چیئرمین سی پیک اتھارٹی مقرّر کر دیا گیا۔ 

گزشتہ برس امریکا اور افغانستان میں متعیّن نیٹو فورسز نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے طالبان سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی اور یہ پاکستان اور افواجِ پاکستان ہی کی کوششوں سے ممکن ہو پایا کہ طالبان ، امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئےاور اب ان مذاکرات سے حتمی نتیجہ نکلنے کی توقّع کی جا رہی ہے۔ اس موقعے پر امریکاسمیت دیگر ممالک کو بھی حکومتِ پاکستان اور پاک فوج کی صلاحیّتوں کا اعتراف کرنا پڑا۔اس پورے مرحلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو، جس نے افغانستان میں اربوں ڈالرز خرچ کیے ، افغان امن پراسز میں شامل ہی نہیں کیا گیا، نہ ہی کوئی اہمیت دی گئی ۔جس کی وجہ سے نام نہاد سیکولر اسٹیٹ، بھارت میں بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔2019ء میں پاکستانی میڈیا نےبھی افواجِ پاکستان کی خُوب پذیرائی کی اوربھارتی میڈیا کے پاک افواج کے خلاف بے بنیاد الزامات، پروپیگنڈوں کا منہ توڑ جواب دیا۔

دوسری جانب ،2019ء میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)بھی خاصا ایکٹیو نظر آیا۔ ڈی جی، آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور نے 20اپریل کو پریس کانفرنس میں پاکستانی میڈیا کی تعریف کرتےہوئے کہا کہ’’ اگر 1971ء میں آج کا پاکستانی میڈیا ہوتا ،وہ بھارتی سازش اور اس کے حربوں کو بے نقاب کردیتا، تویوں مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہ ہوتا۔‘‘ ڈی جی نے سابق بھارتی آرمی چیف جنرل، بپن راوت کی ایٹمی جنگ کی دھمکی کو غیر ذمّے دارانہ بیان اور 27فروری کے واقعے پر بھارتی حکومت اور میڈیا کی جانب سے ایف 16طیارہ گرانے کے دعوے کو بھی من گھڑت قرار دیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ اگر امریکی ٹیم یہ کہہ دے کہ آپ کا ایک ایف 16 طیارہ کم ہے، تو ہم آپ کے دعوے کو درست مان لیںگے ، جب کہ ہمارے شاہینوں نے آپ کے دو طیارے، ایس یو 30 اور مِگ 21 مار گرائے اور یہ دنیا نے دیکھا۔‘‘ میجر جنرل آصف غفور نے 28فروری کو بھارتی ایمونیشن ڈپو تباہ کرنے اور بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کے اِردگرد پاکستانی شاہینوں کے حملے کا بھی ذکر کیا، جس میں بھارتی آرمی چیف کی سربراہی میں اجلاس ہو رہا تھا۔ 

اس رات لائن آف کنٹرول پر پاکستانی توپوں کی جوابی کارروائی کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ’’ذرا اپنی قوم کو بتائیں کہ اس حملے میںکتنے بھارتی فوجی مارے گئے۔ ہماری اطلاع کے مطابق پاکستانی جوانوں کی کارروائی میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بھارتی فوجی مارے گئے۔‘‘ انہوں نے ایک اور موقعے پر بھارت کو متنبّہ کیا کہ ’’ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں، مسلّح افواج، 260 ملین پاکستانیوں کے تعاون سے آپ کو ہمیشہ سخت جواب ہی دیں گی۔ جو گرجتے ہیں ،وہ برستے نہیں، لہٰذا بھارتی آرمی چیف ، گیڈر بھبکیوں سے گریز کریں۔‘‘  

میجر جنرل آصف غفور نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’جنگ صرف ہتھیاروں یا معیشت سے نہیں، جذبۂ حبّ الوطنی ،جذبۂ شہادت اور قوم کے بھرپور اعتماد سے لڑی جاتی ہے۔‘‘ آرمی چیف ،جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ ثابت کیا کہ احتساب صرف سوِل اداروں میں نہیں ہوتا، بلکہ فوج میں بھی احتساب کا عمل جاری رہتا ہے۔ 2019ء میں بھی پاک فوج میں احتساب کا عمل بھی انتہائی سخت رہا۔ اعلیٰ ترین عُہدوں کے افسران کو کڑی سزائیں دی گئیں اوراس کا اعلان میڈیا پرہوا۔ عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ فوجی اگر کرپشن کریں، تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔

تاہم، ملٹری کورٹ نے مُلک و قوم سے غدّاری اور جاسوسی کے الزام میںر یٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل، جاوید اقبال کو 14 سال قیدِ بامشقّت ، جب کہ سابق بریگیڈیئر راجہ رضوان اور ڈاکٹر وسیم اکرم ، جو کہ ایک حسّاس ادارے میں بطور انجینئر تعیّنات تھے، موت کی سزا ئیںسنائیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوری طور پر ان سزائوں کی توثیق کر دی ۔ ذرایع کے مطابق بریگیڈیئر رضوان کی سزائے موت پر عمل درامد بھی کر دیا گیا ہے۔ تاہم، آئی ایس پی آر کی طرف سے اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔ ابھی متعدد دیگر فوجی افسروں کے خلاف بھی کیسز زیرِسماعت ہیں۔

اقوامِ متّحدہ کی امن فوجوں میں پاکستانی افواج کی شرکت اور لازوال پیشہ ورانہ مہارت کا اعتراف ،اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترش نے بھی کیا ۔ پاکستانی فوجیوں نے اقوامِ متحدہ کی امن فورسز میں جانوں کی قربانی دے کر دنیا بھر میں وطنِ عزیز کا نام روشن کیا۔ سالِ گزشتہ بھی افواجِ پاکستان نےدہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے کئی آپریشنز کیے، جن میں ہمارے کئی جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ 

اس کے برعکس امریکا کھربوں ڈالرز خرچ کرنے اور سیکڑوں فوجی مروانے کے باوجود طالبان اور دہشت گردوں پر کنٹرول حاصل نہ کرسکا اور نہ ہی افغانستان میں امن قائم ہوا، لہٰذا اسےمجبوراً پاکستان کے تعاون ہی سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے پڑے۔

تازہ ترین