• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتی فیصلے، ناقص حکومتی کارکردگی، سیاسی بے یقینی چھائی رہی

پاکستان کے سیاسی اُفق پر 2019ء کی تُند و تیز گھٹا کچھ اس طور چھائی کہ بہت محنت سے جمع کیے گئے تنکوں کو خس وخاشاک کی طرح اُڑا لے گئی۔اگرچہ تحریکِ انصاف کی حکومت گزشتہ سے پیوستہ برس ہی قائم ہو چُکی تھی، تاہم 2019ء کو بجا طور پر’’نئے پاکستان ‘‘کا پہلا برس قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ سال پاکستان کی سیاسی تاریخ پر کئی ایسے اَن مِٹ نقوش چھوڑ گیا، جو برسوں یاد رہیں گے۔ سالِ رفتہ کا آغاز چیف جسٹس سپریم کورٹ، جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ سے ہوا، جو 17جنوری2019ء کو سبکدوش ہوئے اور پانامہ لیکس پر دیئے گئے فیصلے میں’’گاڈ فادر‘‘کا حوالہ دینے والے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نئے چیف جسٹس بنے۔ 

جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی عدالتی فعالیت کا وہ سلسلہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا، جو اُن کے طوفانی دَوروں کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ جسٹس ثاقب نثار نے دیامر بھاشا ڈیم فنڈ قائم کرکے قوم کو ایک اور سبز باغ دِکھایا، حالاں کہ قوم اِس سے پہلے بھی کئی بار ایسی مہمّات’’ بُھگت‘‘ چُکی تھی۔جنرل ایّوب خان کے دورِ اقتدار میں بھارت سے جنگ ہوئی تو ’’ٹیڈی پیسا مہم ‘‘چلائی گئی۔

قائدِ عوام، ذوالفقار علی بھٹّو کے دَور میں بھی ایک ترقّیاتی فنڈ قائم ہوا، جس میں قوم سے ایک ایک روپیا عطیہ کرنے کی درخواست کی گئی۔ اِسی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں تعلیمی ایمرجینسی کے تحت فنڈ قائم ہوا۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں’’ قرض اُتارو، مُلک سنوارو‘‘ مہم کسے یاد نہیں، مگر دیامیر بھاشا ڈیم کی مخالفت کرنے والوں کو آئین کے آرٹیکل چھے کے تحت غدّاری کے مقدمات چلانے کی دھمکی دی گئی، تو کسی اعتراض اور دلیل کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ 

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ وہ بھی اپنے پیش رَو چیف جسٹس کی طرح ڈیم بنانا چاہتے ہیں، مگر اس ڈیم کا مقصد، مقدمات کے غیر ضروری التوا کے آگے بند باندھنا ہوگا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ دسمبر کے آخر میں گھر چلے گئے، لیکن اُن کا تجویز کر دہ’’ ڈیم‘‘ بن سکا اور نہ ہی جسٹس ثاقب نثار کے بھاشا ڈیم پر کام شروع ہوا۔

سیاسی رہنمائوں کے لیے یہ سال بہت بھاری ثابت ہوا۔ نوازشریف تو پہلے سے گرفتار تھے ہی، مگر سابق وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر، خواجہ سعد رفیق، سابق وفاقی وزیر، مفتاح اسماعیل اور سابق صوبائی وزیرِ قانون، رانا ثنااللہ سمیت مسلم لیگ نون کے کئی سرکردہ رہنمائوں کو جیل جانا پڑا۔ اسی طرح سابق وزیر کامران مائیکل بھی گرفتار ہوئے۔ پنجاب کے صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما، عبدالعلیم خان کو بھی نیب نے حراست میں لیا، مگر وہ چند ماہ بعد رہا ہو گئے۔ 

جعلی اکائونٹس کیس کی تحقیقات کا آغاز ہوا، تو سابق صدرِ مملکت، آصف علی زرداری، اُن کی بہن فریال تالپور اور پھر پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو تحویل میں لے لیا گیا۔ نوازشریف اور آصف زرداری طبّی بنیادوں پر ضمانت ہونے کے بعد رہا ہو گئے۔ اسی طرح فریال تالپور اور خورشید شاہ کی بھی ضمانت ہوگئی، مگر وہ سابق وزیر اعظم ،جس نے قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال کا تقرّر کیا، تادمِ تحریر جیل میں ہے۔ 2019ء کو بھی اہم عدالتی فیصلوں کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔سال کے آخر میں آنے والے دو عدالتی فیصلوں نے بلاشبہ نئی تاریخ رقم کردی۔ پہلے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کو پارلیمنٹ میں قانون سازی سے مشروط کردیا گیا۔ 

پھر سنگین غدّاری کیس کی سماعت کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی عدالت نے سابق آرمی چیف کو غدّاری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت دے کر سب کو حیران کردیا۔ خصوصی عدالت کے تین رُکنی بینچ کے سربراہ، جسٹس وقار سیٹھ نے تو تفصیلی فیصلے میں یہ بھی لکھ دیا کہ’’ اگر جنرل پرویز مشرف پھانسی کی سزا پانے سے پہلے انتقال کر جائیں، تو اُن کی لاش تین روز تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹکا دی جائے۔‘‘ جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت دینے کے فیصلے کی تو تائید کی، البتہ اس جملے سے اختلاف کیا۔ جب کہ بینچ کے تیسرے رُکن، جسٹس نذر اکبر نے پرویز مشرف کو الزامات سے بَری قرار دیا۔جہاں اس فیصلے کو سراہا گیا، وہیں اس پر سخت تنقید بھی ہوئی۔

سالِ رفتہ کے آغاز ہی میں سانحۂ ساہی وال نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سی ٹی ڈی اہل کاروں کی فائرنگ سے گاڑی میں سوار خاتون،اُس کے شوہر اور ڈرائیور کی ہلاکت نے سب کو افسردہ کردیا۔ جب یہ دردناک کہانی منظرِ عام پر آئی، تو وزیرِ اعظم، عمران خان قطر میں تھے۔ اُنہوں نے وہاں سے ٹویٹ کی کہ ’’غیر مُلکی دورے سے واپس آکر سانحۂ ساہی وال کے ذمّے داروں کو ضرور انصاف کے کٹہرے میں لاؤں گا۔‘‘تاہم، چند ماہ بعد ملزمان باعزّت بر ی ہوگئے، تو یہی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم قطر سے واپس نہیں لَوٹے ہوں گے، وگرنہ سانحۂ ساہی وال کے ملزمان قانون کی گرفت سے کیسے چُھوٹ سکتے تھے؟ اسی طرح رحیم یار خان کے سٹی پولیس اسٹیشن میں ایک ذہنی معذور، صلاح الدّین کو بہیمانہ تشدّد کے ذریعے مار دیا گیا۔

اس افسوس ناک واقعے پر بھی اعلیٰ حکّام کی طرف سے نوٹس لینے کا دعویٰ کیا گیا، مگر صلاح الدّین کے خاندان پر مبیّنہ طور پر دبائو ڈال کر صلح کروا دی گئی اور پولیس کی وردی میں موجود درندوں کو معافی مل گئی۔ صلاح الدّین کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں’’ایک بات پوچھوں، مارو گے تو نہیں؟آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ؟‘‘عام آدمی کی زبان پر بھی یہی الفاظ مچل جاتے ہیں’’ایک بات پوچھوں، مارو گے تو نہیں؟آپ نے قوم کو سبز باغ دِکھانا کہاں سے سیکھا؟‘‘ہر حکومت کی طرح تحریکِ انصاف کی حکومت نے بھی پولیس اور تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا وعدہ اور دعویٰ کیا، مگر حقیقی تبدیلی لانے کے بجائے محض نمائشی تبدیلیوں پر اکتفا کر لیا گیا۔

نومبر 2019ء کے آخر میں سب سے بڑے صوبے، پنجاب کا آئی جی پانچویں مرتبہ تبدیل کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی نہ صرف چیف سیکریٹری تبدیل کر دیا گیا، بلکہ پورے صوبے میں بڑے پیمانے پر اُکھاڑ پچھاڑ ہوئی، مگر امن وامان کی ناقص صُورتِ حال کا یہ عالَم رہا کہ11دسمبر کو وکلا کے ایک جتھے نے لاہور میں قائم امراضِ قلب کے سب سے بڑے اسپتال پر دھاوا بول دیا۔ کئی گھنٹوں تک وحشت و درندگی کا کھیل جاری رہا، مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سوئے رہے اور نوبت یہاں تک آگئی کہ آئی جی پنجاب کے دفتر کی حفاظت کے لیے رینجرز کی پلاٹون طلب کرنی پڑی۔

پی ٹی آئی کی حکومت میں لوگ منہگائی اور بے روزگاری کا شکوہ تو کرتے ہی رہے ہیں، مگر سب سے زیادہ ہاہا کار تب مچی، جب حکومت نے نہ صرف حج پر سبسڈی ختم کردی، بلکہ نئے ٹیکسز کے نفاذ اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کے منہگا ہوجانے سے حج ڈیڑھ لاکھ روپے منہگا ہو گیا۔اسی طرح پی ٹی آئی کے رہنما قرضے لینے پر سابقہ حکومتوں کو ہدفِ تنقید بناتے رہے ہیں، مگر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق، پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کے بیرونی قرضے، جو پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں 600ارب روپے سے 1500ارب روپے ہوئے اور مسلم لیگ نون کے دورِ حکومت میں 1500سے بڑھ کر 3000ارب تک جا پہنچے، ابتدائی ڈیڑھ سال کے دوران 4200ارب تک پہنچا دئیے۔ان قرضوں کے حصول کے باوجود صُورتِ حال بہتر نہیں ہوئی۔ معیشت میں بہتری کے آثار نظر نہ آنے پر اپریل 2019ء میں اسد عُمر سے وفاقی وزارتِ خزا نہ کا قلم دان واپس لے لیا گیا، مگر سال کے آخر میں کابینہ میں اُکھاڑ پچھاڑ ہوئی، تو اسد عُمر وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی کی حیثیت سے واپس لَوٹ آئے۔

گزشتہ برس کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی متحدہ اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد تھی، جو ڈرامائی طور پر ناکام ہوگئی۔اپوزیشن، چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے بہت پُراعتماد تھی، کیوں کہ اُسے ایوانِ بالا میں واضح اکثریت حاصل تھی، مگر عین وقت پر’’ سکّہ‘‘ چل گیا اور یہ کوشش کام یاب نہ ہوسکی۔ حیرت انگیز بات یہ رہی کہ جب چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہوئی، تو 64سینیٹرز نے کھڑے ہوکر اُس قرارداد کی تائید کی۔

اپوزیشن کو تحریک منظور کروانے کے لیے 53ووٹس درکار تھے، مگر جب خفیہ رائے دہی ہوئی، تو صادق سنجرانی کے حق میں 45جب کہ اُن کے خلاف 50ووٹ پڑے ، پانچ ووٹ مسترد ہوگئے، یوں صادق سنجرانی ایوان میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود اپنا عُہدہ بچانے میں کام یاب ہوگئے۔جب اِن ہائوس تبدیلی کی کوشش ناکام ہوئی، تو اپوزیشن جماعتوں نے سڑکوں پر احتجاج کا فیصلہ کیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ، مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ اور دھرنے کی کال دی۔ اس پر اپوزیشن جماعتیں گومگو کی کیفیت کا شکار رہیں اور آخری وقت تک یہ فیصلہ نہ کرسکیں کہ اس دھرنے میں کس حد تک شریک ہوا جائے۔

بالخصوص مسلم لیگ نون میں اس حوالے سے بہت تقسیم اور اختلافِ رائے دیکھنے میں آیا۔ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد آکر پڑائو ڈال دیا اور پھر ڈی چوک جانے کی بات کی، تو ایک بار پھر مائنس وَن کی باتیں ہونے لگیں۔ ایک بار تو یوں محسوس ہوا کہ مولانا فضل الرحمان کو کوئی بڑی یقین دہانی کروائی گئی ہے اور حکومت کے رخصت ہونے کا وقت آن پہنچا ہے، مگر عمران خان کا پیر، ماہرِ فن ثابت ہوا۔ 

مولانا فضل الرحمان نے اچانک دھرنا ختم کرکے قافلوں کو پلان’’بی‘‘کے نام پر منتشر ہونے کا حکم دے دیا۔سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کا دھرنا ناکام ہونے سے موجودہ حکومت کے پائوں جم گئے اور اب اس حکومت کو رخصت کرنا ممکن نہیں رہا۔نومبر کے آخری عشرے میں آرمی چیف کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کامعاملہ عدالتِ عظمیٰ پہنچا، تو یوں لگا جیسے یہی وہ یقین دہانی ہے، جس کا در پردہ اظہار مولانا فضل الرحمان کرتے رہے ہیں،تاہم، عدالت نے چھے ماہ کی توسیع دے کر معاملہ پارلیمنٹ کی کورٹ میں ڈال دیا۔

بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے حوالے سے قانون سازی کا مرحلہ آئے گا، تو حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار، سب گِلے شکوے ختم کرکے شیر و شَکر ہو جائیں گے۔ اس قانون سازی کے حوالے سے کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آئے گی، تاہم ماضی میں کم از کم ایک موقعے پر ایسا ضرور ہوا کہ اپوزیشن نے مقتدر حلقوں کی خواہشات کے مطابق قانون سازی نہیں ہونے دی۔گزشتہ برس جب فوجی عدالتوں کی مدّت ختم ہوئی، تو تب بھی یہ توقّع ظاہر کی جا رہی تھی کہ سب ’’چابی والے کھلونے ‘‘مقامِ مقصود پر آکر کھڑے ہو جائیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔کیا اب بھی کوئی اَن ہونی ہوگی یا پھر سب پرانی تن خواہ پر کام کرتے رہیں گے؟یہی وہ سوال ہے، جس میں مستقبل کے تمام اسرار پوشیدہ ہیں۔

اس نظام کی سب سے بڑی طاقت ہی اس کی سب سے بڑی کم زوری ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی ایک شخص بھی مائنس ہوا، تو یہ پورا نظام دھڑام سے گر جائے گا۔ اگرچہ نوازشریف کے باہر جانے اور مریم نواز کے خاموش ہو جانے سے حکومت کو کسی حد تک ریلیف ملا ۔آصف زرداری بھی بیرونِ مُلک چلے جاتے ہیں یا پھر مصلحت کے تحت کچھ عرصے کے لیے گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں، تو حکومت کو درپیش سیاسی چیلنجز بڑی حد تک ختم ہو جائیں گے۔ مگر اصل چیلنج کارکردگی کا ہے، جو گزشتہ برس بد سے بدتر ہوتی گئی۔ منہگائی اور بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ایک آدھ عالمی ایجینسی نے پاکستان کی ریٹنگ بہتر ضرور کی، مگر عملاً کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور صُورتِ حال جُوں کی تُوں رہی۔ تمام تر حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود مُلک میں کسی قسم کی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔

حکومت کو محاصلات کے شارٹ فال کا سامنا رہا اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نت نئے ٹیکسز لگائے جاتے رہے۔یعنی؎وہ تازہ دَم ہیں نئے شعبدے دِکھاتے ہوئے…عوام تھکنے لگے، تالیاں بجاتے ہوئے۔‘‘ ان حالات نے حکومت کو اندرونی طور پر بھی پریشان کیے رکھا۔ اُسے ایوانوں میں جو برتری دلوائی گئی تھی، وہ بھاپ بن کر اُڑنے کے لیے پر تولتی رہی۔ 

کبھی مسلم لیگ قاف ،تو کبھی اختر مینگل جیسے اتحادی ناراض ہوتے رہے۔ اِسی طرح کی اطلاعات ایم کیو ایم کی صفوں سے بھی آتی رہیں۔اس تناظر میں اِن ہاؤس تبدیلی کی باتیں بھی ہوئیں۔ کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ اگر ہوا کا رُخ بدل گیا تو اِن ہاؤس تبدیلی باآسانی لائی جا سکتی ہے، مگر اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت اِن ہائوس تبدیلی کے حق میں نہیں اور اُن کا خیال ہے کہ موجودہ مسائل کا واحد حل ایک بار پھر عوام میں جانا ہے۔

آئین میں بھی مِڈ ٹرم الیکشن کی گنجائش موجود ہے، اس لیے قبل از وقت اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے سرے سے انتخابات کو غیر آئینی یا غیر جمہوری عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

تازہ ترین