• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق صدر مملکت و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالتی کے فیصلے پر بحیثیت پاکستانی میرا سر شرم سے جھک گیا ہے کہ ایک ایسے شخص کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔

جس نے اس قوم کے لئے اتنا کچھ کیا۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ایسے لوگ جو ان کے دورِ اقتدار میں ان کی تعریف میں زمیں و آسماں کے قلابے ملاتے تھے اور جو بعد کی حکومتوں کا حصہ بھی رہے، نے اس فیصلے پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔

اکتوبر 1999ء میں جب وہ اقتدار میں آئے تو پاکستان کی معیشت انتہائی بدحال تھی، جس میں 0.5ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر تھے، جو صرف 6ہفتوں کے لئے کافی تھے جبکہ 2000 سے 2008 کے دوران، جی ڈی پی کی اوسطاًشرح نمو تقریباً 7فیصد تک ہو گئی تھی جو دنیا کے بہت سے ممالک سے کہیں بہتر شرح تھی۔

جی ڈی پی 63ارب ڈالر سے بڑھ کر 170ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا اور 2008تک پاکستان دنیا کی N11 (اگلی11) قوموں میں شامل ہو گیا تھا۔ اس عرصے میں فی کس آمدنی 430ڈالر سے بڑھ کر 1ہزار ڈالر تک ہو گئی تھی۔

غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سال 2008میں 16.5ارب ڈالر تک بڑھ گئے تھے۔ اسی طرح محصولات بھی1999میں 308ارب روپے سے بڑھ کر 2008میں تقریباً ایک کھرب روپے ہو گئے تھے۔

جی ڈی پی قرضے کا تناسب 102فیصد سے بہتر ہوکر 53فیصد ہوگیا تھا۔ برآمدات بھی جو 1999ء میں 7.8ارب ڈالر تھیں، 2008ء میں 17.5ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔سالانہ ترقیاتی بجٹ 90ارب روپے سے بڑھ کر 2008میں 520ارب روپے ہو گیا تھا جبکہ غربت کی شرح 34فیصد سے گھٹ کر 17فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

صنعتی نمو کی سالانہ شرح 2000سے 2008تک کے نو سالہ دورانیے میں 10فیصد رہی۔ ڈالر کی قیمت 60روپے تک محدود رہی جس نے مہنگائی کی شرح کو قابو میں رکھا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔

ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں ایک حقیقی انقلاب برپا ہوا۔ 2000ء میں موبائل فون کی تعداد 5لاکھ سے بڑھ کر 2006میں 7کروڑ سے زائد ہوگئی، جس سے یہ معیشت کا برق رفتاری سے بڑھتا ہوا شعبہ بن گیا۔

ٹیلی کام میں 2.9فیصد سے 70فیصد سے زائد اضافے نے لاکھوں ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے۔ ساتھ ہی آئی ٹی کے شعبے میں ہم نے انٹرنیٹ رابطے میں غیر معمولی ترقی کا مشاہدہ کیا، بالخصوص2000تا2003، 40شہروں سے ملک کے 2000سے زائد قصبوں تک انٹرنیٹ کے روابط میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

اسی عرصے میں فائبر آپٹک رابطہ 30شہروں سے بڑھ کر پاکستان کے تقریباً دو ہزار قصبوں تک پھیل گیا۔ پاکستان کا پہلا مصنوعی سیارہ پاکسیٹ1 (PakSat 1) خلا میں بھیجا گیا، اس طرح خلا میں رہ جانے والی آخری جگہ کو محفوظ کیا جا سکا لیکن صدر پرویز مشرف کو موت کی سزا دی گئی، کتنی شرم کی بات ہے۔

اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے ساتھ ہی اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ایک انقلاب برپا ہوا، اعلیٰ تعلیم کے بجٹ کو 2000ء میں 500ملین روپے سے بڑھا کر 2008ء میں 28ارب روپے کر دیا گیا،

جس نے مضبوط علمی معیشت کی ترقی کی بنیاد رکھی، جامعات اور ڈگری جاری کرنے والے اداروں کی تعداد 2000ء میں 57سے بڑھ کر 2008ء تک 137ہو گئی لیکن ان کو پھر بھی موت کی سزا دے دی گئی، کتنی شرم کی بات ہے۔ اسی طرح ان کے دور میں مواصلاتی نظام میں حیرت انگیز ترقی ہوئی، سڑکوں، شاہراہوں اور ہوائی اڈوں کے مواصلاتی ڈھانچے میں بھی خاطر خواہ بہتری دیکھی گئی۔ تقریباً 29سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار کو قومی پیداواری صلاحیت میں شامل کیا گیا۔

نئے توانائی منصوبےشروع ہوئے۔ زرعی شعبے میں آبپاشی کے متعدد اہم منصوبے شروع کئے گئے۔ دیامر بھاشا بند بنایا گیا جس میں 5ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تھی جو 4ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔

منگلا بند کی اونچائی میں 30فٹ کا اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس بند میں 2.9ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرنے اور 100میگا واٹ بجلی کی پیداوار کی گنجائش ہے۔ متعدد نئے بند اور نہریں تعمیر کی گئیں لیکن افسوس، اس سب کے باوجود ان کو اب بھی موت کی سزا کا سامنا ہے-

انہوں نے جمہوریت کو مضبوطی فراہم کی، ایک بڑی تعداد میں نئے ٹی وی چینلز قائم ہوئے۔ لوگوں کو بااختیار بنانے کے لئے بلدیاتی نظام کا آغاز کیا گیا، حکومت کی ہر سطح پر مخصوص نشستیں دے کر خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنایا گیا، اقلیتوں کو الیکٹوریٹ دے کر مضبوط کیا گیا۔

ان کی نگرانی میں دفاع کے میدان میں بھی بہت کارنامے انجام دیے گئے۔ الخالد ٹینکوں اور جے ایف 17تھنڈر فائٹر جیٹ طیاروں کی تیاری کی گئی۔ میزائل نظام کو جوہری صلاحیت کے ساتھ مضبوط کیا گیا۔

جوہری اسلحہ خانے کو ناقابل تسخیر کمانڈ اور کنٹرول نظام کے ذریعے مضبوط اور محفوظ کیا گیا، اس کے علاوہ اہم اثاثوں کے تحفظ کے لئے آرمی اسٹرٹیجک فورس کمانڈ بھی تشکیل دی گئی۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ صدر کا منصب مکمل طور پر ایک رسمی حیثیت کا ہوتا ہے۔ یہ اختیار پوری طرح سے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کو حاصل ہے جو وزیراعظم ہے۔

صدر مملکت نے صرف وزیراعظم کے مشورے پر عملدرآمد کیا اور کابینہ کے ساتھی اور پارلیمنٹ کے اراکین کے بعد اور ان کی مرضی سے عملدرآمد کیا۔ اگر صدر مجرم ہے تو یہ سب بھی مجرم ہیں۔

مجھےاس فیصلے پر انتہائی شرمندگی ہے کہ ہمارے آرمی چیف کو قومی ہیرو گرداننے کے بجائے غدار ی کا الزام لگاتے ہوئے سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

تازہ ترین