دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے وہ مسلمان جن پر ان جیسے مسلمان حکمران جمہوری طور پر یا خاندانی شہنشاہیت کی وجہ سے مسلط ہیں اس حقیقت کو جتنا جلد سمجھ سکیں اتنا ہی بہتر ہے کہ ان کے حکمرانوں کیلئے نہیں ان کے لئے ریاست کے قوانین کا احترام ضروری ہے۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ 14 صدیوں سے (خلافت راشدہ کو چھوڑ کر) مسلمانوں کو ان کے حکمران ہمیشہ یہی پٹی پڑھاتے اور ذہن نشین کراتے رہے کہ ان پر حکمرانوں کی اطاعت و احترام واجب ہے۔ اس طرح مسلمان عوام کے ذہنوں کو غلامی کا خوگر بنایا گیا۔ انہیں شخصی حکمرانی کے تسلط سے ذہنی طور پر ایک ہی شخصیت کا گرویدہ بنا کر رکھا گیا۔ ریاست اور اس کے قوانین کے احترام کی بجائے ایک شخصیت کے لئے (جو اس دور کا حکمران ہوتا تھا) بیعت لینے اور زندگی بھر اس کی وفاداری کا دم بھرنے کے لئے کیا گیا۔ یہ شخصیت کبھی اُموی اور عباسی اور عثمانی خلیفة المسلمین کہلائی کبھی سلطان، کبھی شہنشاہ اور کہیں مَلک اور رئیس الدولہ۔ آج کل انہیں صدر مملکت اور وزیراعظم کہا جاتا ہے۔ آج بھی پروجیکشن صرف ایک شخصیت کی ہوتی ہے، ہم نے صدیوں سے بادشاہوں کی ذہنی غلامی کی جو عادت ڈالی ہوئی ہے اور شخصی اطاعت کی جو بدعت اپنائی ہوئی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کل کے نام نہاد جمہوری نظام میں بھی ہم کسی فلاحی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی نظریئے کی بجائے شخصیات کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ اپنی اپنی پسندیدہ شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں اور زندگی بھر ان کو اور ان کی آنے والی نسلوں کو سوچے سمجھے بغیر ووٹ دیتے رہتے ہیں اور ان کی محبت کی رومانویت میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ مقبول عوام لیڈر اپنی دولت اور خاندانی ثروت اور وجاہت کی وجہ سے عوام الناس کو اپنا گرویدہ بنا لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ زندگی بھر عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آکر انہی کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔ انہیں حقیر سمجھتے ہیں، ان سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے، ان کی غربت اور جہالت سے آلودہ زندگی سے دور رہنے کے لئے ان سے میلوں دور آرام دہ عیش و عشرت کدے آباد کرتے رہتے ہیں۔ علاج معالجہ کے لئے بیرون ملک جاتے ہیں، اپنے بچوں کو دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم دلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اپنی جائیدادیں خریدتے اور بنک بیلنس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں لیکن لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھنے کے لئے اور ان کے بے وقوف سمجھ کر جذباتیت کے سہارے ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے عوام عوام کے نعرے الاپتے رہتے ہیں اور عوام یہ سوچے سمجھے بغیر انہیں ووٹ دیتے رہتے ہیں اور بڑے محلات میں رہنے والے ان حکمرانوں نے ماضی میں ہماری بہتری کے لئے کیا کیا ہے جو اب کریں گے؟ اس استحصالی گروہ کے ان خود ساختہ قائدین نے اپنے ارد گرد کاسہ لیس، خوشامدی گروہ پال رکھا ہے جو صبح و شام دن رات ان کی جھوٹی تعریفیں کرتے رہتے ہیں، انہیں وقت کا عظیم ترین قائد اور امت مسلمہ کا عظیم لیڈر کہتے رہتے ہیں۔ ان کی دانش، فہم و فراست اور ذکاوت کے جھوٹے فسانے تراشتے رہتے ہیں ان کے ”نفس“ کو خوب پھلاتے رہتے ہیں اور بالآخر یہ لوگ یہی سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ ”ظل الٰہی“ ہیں۔ اس زمین پر خدا تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے، وہ مقصد کیا ہے؟ اپنی شخصیت کی پروجیکشن اور اپنے اثاثوں میں دن دگنی رات چونی ترقی اور نام لیا جاتا ہے اسلامی امہ کی قیادت کا۔ کیا اسلام کے اصول سیاست و ریاست میں کسی شخصی پروجیکشن اور کسی ایک شخصیت کی پرستش کی کوئی گنجائش ہے؟ میرے آقا سرور کونین رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کے جان نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ایک نمایاں اور بلند چبوترہ بنانے کی خواہش ظاہر کی تاکہ دوران محفل آپ اس پر تشریف فرما ہو کر گفتگو ارشاد فرمایا کریں لیکن آپ نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور جو جواب ارشاد فرمایا اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو سادگی پسند تھی اور سادہ طریقے سے ہی حیات طیبہ گزاری اور کائنات کو بے مثال علوم و معرفت کے خزانے لٹا کر آپ اس حال میں اس دنیا سے بظاہر اوجھل ہوگئے کہ اس رات شام کو گھر کا چراغ جلانے کا تیل بھی موجود نہیں تھا۔
ہمارے خود ساختہ مسلمان بادشاہوں نے عوام الناس سے اپنا تعلق آہستہ آہستہ ختم کیا۔ پہلے وہ مساجد میں جمعہ کی امامت کرتے اور خطبہ دیا کرتے تھے اور عوام سے تعلق قائم رکھتے پھر سیکورٹی کے نام پر مساجد میں ان کے لئے علیحدہ چبوترے بنائے گئے اور حفاظتی حصار ان کے ارد گرد قائم کیا گیا پھر انہوں نے مساجد میں آنا بھی چھوڑ دیا اور اپنے محلات میں حفاظتی فصیل کے اندر نمازیں پڑھنے لگے۔ پھر محلات میں بھی نمازیں پڑھنے کا سلسلہ تقریباً ترک ہوگیا اور ان کے محل رقص و جھنکار کے مرکز بن گئے۔ اقبالؒ نے اسی طرف اشارہ کیا تھا:
آتجھ کو بتاو ¿ں میں تقدیر اُمم کیا ہے؟
شمشیر و سناں اوّل طاو ¿س و رباب آخر
لیکن طاو ¿س و رباب کے خوگر اور دلدادہ حکمرانوں، امراءاور سلاطین کو ایسے ایسے وظیفہ خور ملتے رہے جو ان کی حکمرانی کو عین اسلامی قرار دیتے رہے۔ مثال دیکھنی ہو تو دربار اکبری کے نورتنوں میں علامہ ابوالفضل اور علامہ فیضی جیسے جید مذہبی رہنماو ¿ں کو دیکھئے جنہوں نے اکبر کے غیر اسلامی خود ساختہ ”دین الٰہی“ کے حق میں فتویٰ جاری کیا۔ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں اسلامی تحقیق پر کام ہوا لیکن الا ماشاءاللہ مغل بادشاہ اپنی آمریت کے ذریعے اپنی شخصی پروجیکشن کرتے رہے۔ وہ اس سلسلے میں اتنے حاسد تھے کہ اگر کوئی ان کے سگے بھائی کی تعریف بھی کرتا تو وہ قابل گردن زدنی ہوتا تھا۔ صرف ایک ہی شخص کو تعریف و توصیف کا قابل سمجھا جاتا جو وقت کا آمر سلطان اور بادشاہ ہوتا تھا۔ آج بھی ہماری سیاسی جماعتوں کے آمر سلطان اور بادشاہ ہیں اور لوگ ان کی ذہنی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے پھرتے ہیں۔ اقبالؒ نے کہاتھا:
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارد کوئی سوچ ان کی پریشان نگری کا