• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ کہانی جس کا عنوان ہے” اربوں کے قرضے معاف کردئیے گئے “اس کاپہلا پیراگراف جنرل ضیاءنے اپنے دورِ اقتدار کو طوالت دینے کےلئے لکھا تھامگر اتنا پیچھے نہیں جانا چاہتا۔ میں اِس کہانی کے اُس حصے پر تھوڑی سی روشنی ڈالنا چاہتا ہوںجوپرویز مشرف کے دور میں ترتیب پایاجس میں آصف نواز اور زرداری شریف کے دور میں رنگ بھرے گئے۔یہ آپس میں جڑے ہوئے دونوں دور وہی ہیں جس میںابھی تک ہم جی رہے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دور میںیعنی 1999ءسے لے کر 2008ءتک 125 ارب روپے کے کمرشل قرضے معاف کر دئیے گئے ۔قومی اسمبلی کی لائبریری کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق سابقہ دور حکومت میں کئی سیاستدانوں اور ان کے اہل خانہ نے اپنی شوگر ملز، ٹیکسٹائل ملز اور دیگر صنعتی یونٹوں کے لئے متعدد لیے گئے قرضے بڑی خاموشی کے ساتھ معاف کروالئے ہیں۔ان میں زیادہ تر قرضے نیشنل بینک آف پاکستان اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ سے لئے گئے تھے۔ اورموجودہ حکومت میںاس وقت تک 138 ارب 62 کروڑ 60 لاکھ روپے کے قرضے معاف ہوچکے ہیں اگلے چند دنوںتک اگر ایک آدھ کھرب کا اضافہ کی خبر آجائے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔جن لوگوں کے معاف کئے گئے ہیں ان میں بعض سیاستدان، جرنیل، صنعتکار، صحافی اور بعض نجی تجارتی ادارے بھی شامل تھے۔ اور ہاں یہ بات مجھے کسی مخبر نے نہیں بتائی ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزارت خزانہ کی طرف سے ایوان کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیاہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران بینکوں کی جانب سے ایک کھرب 38 ارب 62 کروڑ 60 لاکھ روپے کے قرضے معاف کیے گئے ہیں۔
باپ کا مال تھا یعنی بابا قائداعظم کا مال تھاسوواپس لوٹانے کی کیا ضرورت تھی۔شاید جنرل ضیا کے دور کے آخری دن تھے ۔میں ان دنوں میانوالی ہوا کرتا تھا ایک دوست نے ایک دن بتایا کہ ایک صاحب کوئی کارخانہ لگا رہے ہیں تومیں نے فوراً کہا ” مجھے تو یہ کاروبار چلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا،تو اس نے کہا”انہیں بھی علم ہے کہ یہ کاروبار چلنے والا نہیں ۔حکومت سے قرضہ لینے کا کوئی بہانہ چاہئے تھا ۔ ایک عمارت میں دوتین مشینیں لگا دی ہیں سال ڈیڑھ کے بعد کہہ دیں کہ بزنس کا دیوالیہ ہو گیا ہے اور قرضہ ہضم ہوجائے گا۔ تمہیں معلوم ہے بڑے لوگوں کے معدے بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔پہلے انہوں نے گورنمنٹ کی ہزاروں کنال زمین اسی طرح اپنی جائیداد میں شامل کر رکھی ہے“ ۔ اور پھر ایسا ہی ہوا ایک دوسال کے بعد وہ کار خانہ بند ہوگیا۔آج جب میں قرضہ معاف کرانے والوں کی لسٹ دیکھ رہا تھا تو اس میں ان ہی صاحب کی فیملی بھی تھی جس کے کروڑوںکے قرضے معاف کردئیے گئے تھے ۔
کیا دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ہزاروں روپے کاکوئی قرضہ آج تک معاف نہیں کیا گیا صرف کروڑوں اور اربوں کے قرضے معاف کئے گئے ہیں ۔ ایسا اس لئے ہوتا آرہا ہے کہ بنکوں کے بعض اعلیٰ عہدہ داران خود اس لوٹ مار میں مکمل طور پر شریک ہوتے ہیں۔وہ پالیسیاں ہی ایسی بناتے ہیںکہ جن کے تحت لوگ بڑے قرضے واپس نہ کریں اور پھرکچھ عرصہ کے بعد معاف کرالیں یقینا اس میں ان کا حصہ بھی ہوتا ہوگا۔یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک سرمایہ دار کی چارملیں چل رہی ہے اور روزانہ اسے کروڑوں کا منافع دے رہی ہیں مگر پانچویںمل ناکام ہوگئی ہے اس کا دیوالیہ ہوگیا ہے۔تو بنک اس پانچویںمل کےلئے دئیے گئے قرضے کو کیسے معاف کر سکتا ہے۔قرضے کی معافی تو دنیا میں صرف وہیں ہوسکتی ہے جب دینے والے کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ یہاں تو جن لوگوں کے قرضے معاف کئے گئے ہیں ان کی خاندانی جاگیریں کھربوں روپے کی ہیں ۔
اسی حوالے سے ابھی ایک نیا سلسلہ شروع ہونے والا ہے کہ قرضے معاف کرانے والے عدالتوں میں اپنے ساتھ بنکوں سے تصدیق شدہ لیٹر لے کر جائیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے قرضے تو قانون کے مطابق معاف کئے گئے ہیں سو ہمیں الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہئے اور پھرزیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ عدالت انہیں اس بات کی اجازت دے دے گی کیونکہ عدالت نے تو فیصلہ ان کاغذات کے مطابق کرنا ہے جو بنکوں نے بنا کر دئیے ہیںاس سلسلے میں سپریم کورٹ نے جو کمیشن بنایا تھا وہ اس سے پہلے کئی سیاستدانوں کے قرضوں کی معافی کو درست قرار دے چکا ہے۔ اب نواز لیگ اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والوں کا بھی حق بنتا ہے کہ بنکوں نے ان کے حق میں جو کاغذات تیار کئے ہیں عدالتیں انہیں بھی مان لیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ابھی توسپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل کردہ جوڈیشل کمیشن نے اربوں روپے کے قرضے معاف کروانے والے 222 بڑوں سے قرضے واپس لینے کی سفارش کر دی ہے۔
جنرل ضیا کے دور میں معاف کرائے گئے قرضوں کی تو کہانی ہی مختلف ہے ۔پاکستان کی تاریخ میں معاف کیے گئے قرضوں کی بڑی تعداد کا تعلق 1980ءاور 1990ءکی دہائی سے ہے جنہیں واپس نہیں کیا گیا تھااور ایک دن سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے قومی بینکوں کو دس سال سے پرانے قرضے معاف کرنے کی ہدایت دے دی۔کیا لطف کی بات ہے کہ اس ہدایت نامے کے تحت بھی صرف کروڑوں اور اربوں کے قرضے معاف کئے گئے، ہزاروں کے نہیں،لعنت ہے ایسے سرمایہ دارانہ نظام پر۔ قرضے معاف کرنے کی وہ کہانی جس کا پہلا پیراگراف جنرل ضیا نے لکھا تھا اور جسے جنرل پرویز مشرف اور صدر زرداری نے ایک مکمل کہانی بنا دیا ہے اس کا انجام کیا ہوگا۔ یقینا ایسی کہانیوں کا انجام بڑا درد ناک ہوتا ہے۔ کسی ایسے انجام کی امید تو لگا رکھی ہے چیف جسٹس آف پاکستان سے ۔۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی یہ کہانی اس وقت تک چلے جب لوگ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں سے نکلیں گے اور بڑی بڑی کوٹھیوں اور کاروں کو پاﺅں کی ٹھوکر بنالیں گے۔
تازہ ترین