• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

(37) کہ جب میں نے اپنی جوانی تیری خدمت میں گزار دی تو اب بڑھاپے میں مجھے اپنے یہاں سے دور نہ کر (نہ دھتکار)۔ (38) اگر تو منصب عطا کرے تو کسی منعم شناس کا عطا کر کیونکہ مفلس کو سلطان سے کوئی خوف نہیں ہوتا۔ (39) جب کسی مفلس نے اپنی گردن کندھے پر رکھ دی (بوڑھا ہو گیا) تو اس سے سوائے خروش ؍شور کے اور کچھ نہیں ہو سکتا (وہ اس عمر میں صرف واویلا ہی کر سکتا ہے)۔ (40) جب کسی مُشرف نے امانت سے دو ہاتھ رکھے (خیانت کی) تو اس پر ایک نگران مقرر کر دینا چاہئے۔ (41) اور اگر اس (نگران) نے بھی اپنے دل سے موافقت کر لی (خیانت پر مائل ہوا) تو پھر مُشرف اور اس کے نگران (دونوں) سے عمل ختم کر دے (ملازمت سے دونوں کو نکال دے)۔ (42) امانت ادا کرنے (واپس کرنے) والا خدا ترس ہونا چاہئے، جو امین (جس کے پاس امانت رکھی ہو) تجھ سے ڈرتا ہے تو اسے امین نہ رکھ۔ (ڈر کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ بد دیانت ہوگا)۔ (43) امین کے لئے ضروری ہے کہ وہ داور یعنی خدا تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو ناکہ اسے دیوانِ ؍عدا لت کی طرف سے خط (مراد وارنٹ) اور ڈانٹ ڈپٹ اور خوف ہو (خدا کا خوف ہو تو انسان ایسے کام ہی نہیں کرتا جن سے اسے مذکورہ حالات سے گزرنا پڑے)۔ (44) تُو بکھیر دے اور گن اور فارغ بیٹھ جا، اس لئے کہ تُو سو میں سے ایک کو (ایک کو بھی) امین نہ پائے گا۔ (یہی مراد ہو سکتی ہے کہ تُو دولت مستحق لوگوں میں تقسیم کر دے، تھوڑی سی رکھ جو تو گن سکے اور یوں فراغت کی زندگی بسر کر۔ واللہ اعلم)۔ (45) دو پرانے ہم قلم ہم جنسوں (جو ایک ہی ملازمت والے ہوں) کو کسی جگہ اکٹھا نہیں بھیجنا چاہئے (کیونکہ وہ مل کر اپنا مفاد پورا کر لیں گے اور تیرے مفاد میں گڑبڑ کر دیں گے۔ اگلے شعر میں وضاحت کر دی ہے)۔ (46) تجھے کیا خبر کہ وہ دونوں ہم دست (برابر کے شریک) اور یار ہوں، ان میں سے ایک تو چور ہو جبکہ دوسرا اس کی پردہ داری کرنے والا۔ (47) جب چوروں کو ایک دوسرے سے خوف اور ڈر ہو (تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قافلہ سلامتی سے اپنا سفر طے کرتا ہے)۔ (48) جب تُو نے کسی کو اس کے مرتبے ؍عہدے سے معزول ؍(برخاست) کر دیا تو جب کچھ عرصہ گزر جائے تو اس کی خطا معاف کر دے۔ (49) اگر تُو یہ چاہتا ہے کہ تیرا نام جاوداں رہے تو پھر نیک نامی کو مت چھپا۔ (انہوں نے جو اچھے کام کئے ہیں انہیں سب پر ظاہر کر)۔ (50) تُو نے پہلے بادشاہوں کے عہدے کے بعد ان کے جو نقش ؍(کارنامے) دیکھے ہیں، ویسے ہی نقش تو اپنے عہد کے بعد پڑھ (یعنی تیرے کارناموں کی بدولت تیرا نام زندہ رہے گا)۔ (51) وہ (پہلے بادشاہ) ایسے ہی نام و طرب اور مقاصد والے تھےـ جنہیں وہ اپنے جانے کے بعد پیچھے چھوڑ گئے۔ (52) ایک انسان تو اس دنیا سے نیک نامی کے ساتھ گیا اور ایک سے برے طور طریقے جاوداں ہو گئے۔ (وہ اپنے پیچھے برائیاں چھوڑ گیا)۔ (53) کسی کی اذیت کو رضا کے کانوں سے نہ سن اور اگر کوئی ایسی بات کہی گئی ہے تو غور و فکر سے اس کی جانچ پڑتال کر (یونہی سنی سنائی پر کسی کو اذیت نہ دے)۔ (54) جو خطاکار ہے اس کے لئے بھول چوک کے عذر کو پیش نظر رکھ (یعنی اس نے جان بوجھ کر خطا نہیں کی ہوگی، بھول سے ہو گئی ہوگی) جب خطاکار پناہ مانگیں تو انہیں پناہ سے نواز۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین