• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی سیاست میں ایک کہاوت ہےکہ کوئی بھی چیز اس طرح الیکشن نہیں جتاتی جس طرح جنگ جتاتی ہے۔ اور صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ بیشتر ممالک میں یہ بات آپ كو درست لگے گی۔ 

امریکہ سے سب سے مقبول صدورکو دیکھ لیں، ان میں سے زیادہ تر تعداد ایسے ’’سپہ سالاروں‘‘ کی ہے جنہوں نے جنگ لڑی اور برتری حاصل کی۔ جارج واشنگٹن نے امریکہ کی آزادی کی جنگ لڑی تھی، ابراہم لنکن نے امریکہ میں ہی سول وار کے دوران صدرات کی تھی اور بغاوت کو دبایا تھا۔ 

لیکن دوسری طرف جو صدر جنگ کی وجہ سے مقبول نہیں بھی ہوئے اور جنگ میں شکست بھی ہوئی، ان کو بھی جنگ دوبارہ صدر بنا دیتی رہی۔ آج تک کوئی امریکی صدر جو جنگ کے دوران صدر رہا ہو، دوبارہ انتخاب کا الیکشن نہیں ہارا۔جیمز میڈیسن جو امریکہ کے 1812ء کی جنگ کے دوران صدر تھے، دوبارہ منتخب ہوئے۔ 

ابراہم لنکن، جو سول وار کے دوران صدر تھے، 1864ء میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ وُڈرو ولسن اور روز ویلٹ‘ جو جنگ عظیم اول اور دوم کے دوران صدر تھے، دونوں دوبارہ منتخب ہوئے۔ 

لینڈون بی جانسن، جو ویتنام جنگ کے دوران صدر تھے، 1964ء میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ رچرڈ نکسن بھی جو ویتنام وار کے وقت صدر تھے، 1972ء میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ جارج ڈبلیو بش، جو عراق اور افغانستان کی جنگوں سے دوران صدر تھے، دوبارہ منتخب ہوئے۔ 

امریکی تاریخ میں اگر جنگ کے دوران کوئی صدر دوبارہ منتخب نہیں ہوا تو وجہ صرف الیکشن نہ لڑنا ہے۔ صرف جارج ڈبلیو بش نے والد جارج بش سینئر کے کیس میں یہ تھا کہ جنگ الیکشن سے 18ماہ پہلے ہی ختم ہو گئی تھی۔

یہ پس منظر آج كے حالات کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایران کے ساتھ جو کشیدگی میں اضافہ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے ذریعے کیا گیا اِس میں اِس پس منظر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ الیکشن کا سال ہے اور حیران کن اور پریشان کن بات یہ ہے کہ 2011ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما نے دوبارہ الیکشن سے پہلے اِس خدشے کا اظہار کیا تھاکہ دوبارہ منتخب ہونے كے لیے اوباما کہیں ایران سے جنگ نہ چھیڑ دیں۔مکافاتِ عمل یہ ہے کہ آج ٹرمپ کے بارے میں بھی یہی خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے۔ 

ٹرمپ کی صورتحال زیادہ نازک شاید اس لئے بھی ہے کہ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی قرارداد آ چکی ہے، یعنی کانگریس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے كہ ٹرمپ كو صدر نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ صدرات سے ہٹانے کا ٹرائل ابھی سینیٹ میں چلنا باقی ہے۔

اگر سابق صدر اوباما کی کوئی بڑی سفارتی کامیابی تھی تو وہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل تھی۔ اس ڈیل سے ایران کو بھی فائدہ ہوا اور مغربی دنیا کو بھی اپنے خدشات دور کرنے کا موقع مل گیا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے آکر اِس ڈیل کو فوراً یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تاہم برطانیہ، روس، فرانس، چین اور جرمنی نے اِس کو بچانے کی بے پناہ کوشش کی۔ اب ایران نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس ڈیل کا محتاج نہیں سمجھے گا۔

مشرقِ وسطیٰ میں آگے کیا ہوگا، اِس پر بہت تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر جگہوں پر تیسری جنگ عظیم کا ذکر شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ صورتحال ایک پریشانی کا الارم ہے کہ ہم کریں تو کیا کریں۔ امریکہ کا بھی دباؤ آئے گا، ہمارے مشرق وسطیٰ کے اہم اتحادی بھی دبائو ڈالیں گے لیکن ہم اپنے ہی پڑوس میں ایک اور جنگ اور بگڑتی ہوئی صورت حال کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ 

ایک طرف بھارت، دوسری طرف افغانستان اور اگر تیسری طرف ایران میں بھی معاملہ بگڑ گیا تو اِس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑے گا، چاہے وہ مہاجروں کی شکل میں ہو یا دہشت گردی کی شکل میں۔

کل پاکستان کی طرف سے ایک بہت ذمہ دارانہ بیان جاری کیا گیا ہے ہم صرف امن کا ساتھ دیں گے۔ یہی پالیسی ہے جو ہمیں آنے والی مشکلات سے بچا سکتی ہے۔ ایران بھی سمجھتا ہے کہ ٹرمپ کا آخری سال ہے اور وہ اِس ایشو کو استعمال ضرور کرے گا، لیکن فوراً کوئی ایسا براہِ راست قدم نہیں اٹھائے گا جس سے معاملہ بگڑے۔ 

اب بھی امریکہ میں بہت سے لوگ ہیں بالخصوص کانگریس، جو ٹرمپ کو ایران كے ساتھ جنگ شروع نہیں کرنے دے گی، اس لئے ایران نہیں چاہے گا كہ اسے مجبور کرے۔ ایران سے اور ہم سب کے مفاد میں یہی ہے كہ جنگی جنون كو کم سے کم کیا جائے۔

پاکستان کا اس کشیدگی میں ایک اہم کردار اپنے اتحادیوں کو سمجھانے بجھانے کا ہوگا۔ پہلے بھی یمن میں ہونے والی جنگ میں ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ہمارے اتحادی ہم سے کافی ناراض ہوئے تھے، لیکن اگر تمام فریق امریکی الیکشن تک انتظار کر لیں تو ممکن ہے کہ ٹرمپ ہار جائے یا یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ٹرمپ جیت گیا تو اس جنگی جنون کی ضرورت ہی نہ رہے۔

جرمنی میں ایک حالیہ سروے کہ ’’دنیا کو جنگ کی طرف کون دھکیل رہا ہے؟‘‘ میں 47فیصد افراد نے امریکی صدر ٹرمپ کا نام لیا کہ وہ دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔ 

جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی دنیا میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ دنیا میں جنگ کی آگ کون بڑھکا رہا ہے۔ تاہم ضروری نہیں کہ امریکہ ایران کشیدگی کی وجہ امریکہ کے انتخابات یا صدر ٹرمپ کی دوبارہ منتخب ہونے کی خواہش ہی ہو، لیکن یہ اس منظر نامے کا ایک ایسا پہلو ہے جس سے پہلو تہی نہیں کی جا سکتی۔ 

اتوار کو ایک امریکی ٹاک شو کے پروڈیوسر نے ٹویٹ کیا تھا کہ امریکہ کے اندر بھی غربت ہے، لوگوں کے پاس کھانا ہے نہ ہی علاج معالجے کی سہولتیں، ٹرمپ ایک طرف کہتا ہے كہ عوام کو جو امداد دی جاتی ہے اس کے لیے پیسے نہیں لیکن جنگ کے لیے اربوں ڈالر کہاں سے آ جاتے ہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین