ایران نے اپنے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں امریکی ایئربیس پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا جبکہ تہران کی جانب سے اس حملے میں 80 افراد کے مارے جانے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔
تاہم ایرانی فورسز کی جانب سے جو بیلسٹک میزائل مارے گئے وہ 500 پونڈ تک کا دھماکا خیز مواد اپنے ساتھ اپنے ساتھ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیے: ’ایران نے امریکا کو متناسب جواب دے دیا‘، جواد ظریف
غیر ملکی ٹیبلائیڈ کی رپورٹ کے مطابق ایران نے عراق میں عین الاسد اور اربیل کے مقام پر امریکی بیسز پر 2 طرح کے بیلسٹک میزائل داغے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایران نے اس اسٹرائیک میں ’’فتح-110‘‘ نامی بیلسٹک میزائل کا استعمال بھی کیا ہے جو 180 میل یا پھر 300 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے اس سے بھی زیادہ مہلک ’’قیام-1‘‘ نامی بیلسٹک میزائل کو استعمال کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
مزید پڑھیے: ’امریکا نے دوبارہ حملہ کیا تو جواب مزید سخت ہوگا‘
قیام-1 میزائل کو ایران نے تیار کیا ہے جو 500 میل تک مار کرنے اور 750 پونڈ تک وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایرانی ذرائع کے مطابق ابتداء میں تیار ہونے والا ایرانی ساختہ زمین سے زمین تک مار کرنے والا میزائل کسی بھی جگہ سے لاؤنچنگ کی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم بعد میں اس میزائل میں کچھ تبدیلی کرکے انہیں خطے میں موجود امریکی بیسز کو نشانہ بنانے کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا گیا۔
جب فتح-110 کو لاؤنچ کیا گیا تھا تو اس حوالے سے ایرانی وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل عامر حتامی کا کہنا تھا کہ اسے 100 فیصد ایران میں تیار کیا گیا ہے جو ٹیکٹیکل ہتھیار ہے اور ریڈار کو چکما دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان میزائلوں کو ایران کے شمال مغربی صوبے تبرِیز اور عراق سرحد سے ملحقہ کرمان شاہ سے داغا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: جنرل سلیمانی کی عراق میں نماز جنازہ کس پاکستانی عالم نے پڑھائی؟
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جوناتھن ہوفمین کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ ان میزائلوں کو ایرانی سرزمین سے ہی فائر کیا گیا ہے جن کا ہدف عراق میں عین الاسد اور اربیل کے فوجی اڈے تھے۔
انہوں نے واضح کیا کہ امریکا ایرانی حملے سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے رہا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی نے اس حملے کو جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ قرار دیا جبکہ دوسری جانب ایران کے پاسداران انقلاب نے خطے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اپنے حملے کے خلاف رد عمل دینے پر بھی خبردار کردیا۔
پاسداران انقلاب نے خبردار کیا کہ اگر ان کے حملے پر ردعمل دیا گیا تو ان کا اگلا نشانہ اسرائیل ہوگا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری اسٹیفنی گریشام نے میڈیا کو بتایا کہ وائٹ ہاؤس تمام صورتحال سے آگاہ ہے اور امریکی صدر کو بھی معاملے سے آگاہ کردیا گیا ہے جبکہ وہ قومی سلامتی ٹیم کے ہمراہ معاملے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔