فکر فردا … راجہ اکبردادخان
کرسمس چھٹیوں کے نئے سال اور Nissan car companyکے سابق چیف ایگزیکٹیوCarlos Ghosnجنہیں کمپنی مالکان نے کچھ عرصہ قبل انکےCriminal Conduc کی وجہ سے عہدہ سے فارغ کردیا تھا اور جنہیں اس حوالہ سے عدالتوں کا سامنا تھا اور وہ اپنے جاپانی بنگلہ (Villa)میں ضمانت پہ نظر بند تھے سے کامیاب فرار کی مختلف پر پیچ اور خوبصورت داستانیں میری ذمہ دار دلچسپی کی وجہ بنی رہیں، عالمگیر شہرت کا یہ کارکمپنی ایگزیکٹیو 10.5ملین پونڈ کی مشروط ضمانت جس میں ان کی چوبیس گھنٹے کی نگرانی وہ صرف اپنے وکیل سے ملنے گھر سے باہر نکل سکتا تھا۔ اس کے تمام پاسپورٹ اس کے وکیل کے پاس تھے اور وہ معاسوائے اپنے کچھ گھریلو ملازمین کے دوسرے لوگوں سے رابطہ نہیں رکھ سکتا کے تحت اپنے گھر میں نظر بند تھا، گزشتہ دو ہفتوں کے برطانوی اخبارات نے مسٹر گھوسن جو فرنچ ، برازلین، لبنانی اور جاپانی شہریت کے حامل ہیں کہ زندگی کے مختلف پہلوئوں پہ طفصیلی رپورٹس شائع کی ہیں جنہوں نے مجھے اپنی گرفت لے رکھا ہے، فرار کی یہ کہانی اگرچہ بالکل انوکھی نہیں۔ مگر پچھلی نصف صدی کے درجن بھر قید سے فرار کے انوکھے واقعات میں اپنی جگہ بناچکی ہے، اگرچہ اس باجرات اور اچھی منصوبہ بندی میں تکمیل پائے اس فرار کی بہت سی تفصیلات ابھی سامنے آنی ہیں، کئی ڈاکو منٹری اور فلم بنانے والے افراد اور ادارے ابھی سے ہی دلچسپی دکھارہے ہیں، سوچا جنگ لندن کے قارئین سے بھی یہ معلومات شئر کرلوں۔ 65سالہ کارلوس گھوسنNissanکار کمپنی کے برطرف چیف ایگزیکٹیو کا کر منل ٹرائل اپریل میں شروع ہونا تھا، اس خبر کو The Timesکے سینئر صحافیBen Macintyreنے ایک طویل تجزیہ کے ساتھ اس شہ سرخی کے ساتھ Loopeholes That Led to Ghosni Great Escapeابتدا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گھوسن کے اس فراز یں بیوروکریسی کا بانڈ سٹائل گیجٹس کی نسبت زیادہ دخل تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ گھوسن کے اس فرار کی دو مختلف رددادیں ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ انہوں نے اپنے گھر پہ ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا جس میں گانے بجانے کے کئی بڑےInstrumentsبھی لائے گئے۔ دعوت کے اختتام پہ مسٹر گھوسن کو ایک بڑے میوزیکل ڈبہ میں بند کرکے نزدیکی ائر پورٹ پہنچادیا گیا۔ جہاں سے وہ ایک نجی جہاز میں استنبول پہنچ گئے، مسٹر گھوسن صرف پانچ چھ انچ قد کے انسان ہیں۔ لہذا ان کو ایک بڑے خالی بکس میں بھگوادینا مشکل نہ تھا ۔ وہ ایک نجی فلائیٹ میں استنبول پہنچ گئے۔ استنبول سے وہ ایک بار پھر ایک نجی فلائیٹ میں لبنان پہنچ جاتے ہیں ۔ اور انہیں آزادی مل جاتی ہے جاپان جہاں 98فیصد کیسز میں سزائیں ہوجاتی ہیں کہ لبنان کے ساتھ ملزموں کے تبادلہ کا کوئی معاہدہ نہیں دوسری فرار کی ردداد یہ ہے کہ پارٹی کے اختتام پہ مسٹر گھوسن گھر سے نکلنے پہ تین سومیل دور کنائی ائیر پورٹ ایک کار میں پہنچادیئے گئے۔ جہاں سے وہ ترکی پہنچ گئے۔ یہاں انہوں نے ایک بار پھر جہاز تبدیل کیا اور لبنان ایک درست فرنچ یا پاسپورٹ پہ انٹر ہوگئے۔ یہ پاسپورٹ غلطی سے جاپانی حکام نےانکے پاس ہی رہنے دیا تھا۔ اخبار کا رپورٹر دوسری ردداد کو حقیقت کے زیادہ قریب سمجھتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملکوں کے درمیان لوگوں کو ادھر ادھر کرنے میں زیادہ ہاتھ بیوروکریسی کے ہوتے ہیں۔نہ کہ صرف جرات مندانہ اقدامات کے گھوشن کا فرار جیمز بانڈ فلم کا منظر نہیں تھا۔ بلکہ دفتری کلریکل کام کاج اور اسپیناج میں اتفاق رائے کا بہترین نمونہ ہے۔ وہ جاپانی انصاف سے غیر قانونی طریقہ سے باہر نکلا اور لبنان میں قانونی طریقہ سے داخل ہوگیا۔ گھوشن مسٹرز(گوشن مخالفین) کو یقین تھا کہ نسان کمپنی کے سابق باس لبنان میں کسی حقیقی پاسپورٹ کے بغیر داخل نہیں ہوسکتے یہ بھولتے ہوئے کہ جاپانی قانونی غیر ملکی شہریوں کو شناخت کیلئے ایک ڈاکو منٹ رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے اور اسی ضابطہ کے تحت انکے فرنچ پاسپورٹ جو ان کے وکیل کی تحویل میں تھا کو اگرچہ Crowbarکے ذریعہ حریف کپس سے نکال لیا گیا۔ مگر اس کو استعمال کرتےہوئے تین ممالک سے گزرنا کہیں زیادہ پیچیدہ معاملہ تھا، جس میں اندر کے لوگوں کی مدد چاہے تھی۔ جو چی ہیرو جو مسٹر گھوشن کے وکیل بھی کہتے ہیں کہ انکے موکل کا اس طرح غائب ہوجانا کسی بڑے ادارے کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا، اخبار کے مطابق مسٹر گھوشن کا اغوا کسی پرائیویٹ ادا جس کو اس کام کیلئے اجرت دی گئی ہے کا کام ہے، جہاں تک لبنان میں داخلہ کی بات ہے اس میں لبنان ، ترکی اور ممکن ہے جاپانی خفیہ اداروں کا بھی ہاتھ ہو،اگر گھوشن کیس چلتا تو یہ Nissanکار کمپنی اور کئی دیگر کیلئے زندگی درہم برہم کرنے والا واقعہ ہوتا،جسسے کئی اداروں اور کئی نہایت اہم لوگوں کیلئے پریشانیاں پیدا ہوتیں۔ مشہور جاسوسKim Philbyکے فرار کی طرح یہاں بھی دردازہ شاہد تعدا نیم کھلا رکھا گیا تھا؟ اخبار ملک سے ملک ( کراس باڈر) اغوا کے بارے میں لکھا ہے کہ Infra Redکیمروں کے استعمال سے پہلے وقتوں میں ایسے اغوا مشکل نہ تھے۔ ایسی مثالوں میں اودارو ڈیکوUmaru Dikkoجو ایک سابق نائیجیرین منسٹر تھے کے لندن سے اغوا کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ جنہیں ایک کارگوڈبہ میں نائیجیریا روانہ کیاجارہا تھا کہ کسٹمر والوں نے انہیں سٹینڈڈ ایئر پورٹ سے آزاد کروالیا۔ کارلس گھوسن کو کسی جعلی پاسپورٹ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ انہیں بیہوش کرنے کی ضرورت بھی نہ تھی ان کے پاس ایک ایسی موثر ٹیم تھی جو بیوروکریسی کو بھی اچھی طرح سمجھتی تھی اور بین الاقوامی ٹرانزٹ سفر کو بھی اور پلان کی کمزوریوں کو بھی ان کو باہر نکالنے والی ٹیم کو علم تھا کہ بعض حالات میں فرنچ حکومت ٹریولنگ بزنس مین( جو گھوسن تھا) کو ایک سے زیادہ پاسپورٹ دے دیتی ہے۔ اس ٹیم کو یہ بھی علم تھا کہ لبنانی حکام باآسانی گھوشن کو اس کے پاسپورٹ پہ انٹری دے دینگے، اور زیادہ سوال نہیں پوچھیں گے۔ اس ٹیم کو یقینی طورپر علم تھا کہ جاپان اور لبنان کے درمیان ملزمان تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ لوگوں کو اس بگھانے والی ٹیم (Exfiltration Team)نے انٹرنیشنل قوانین میں سقم اچھی طرح سمجھ لئے تھے۔ جن سے فائیدہ اٹھاتے ہوئے گھوشن حیران کن آسانی کے ساتھ لبنان میں داخل ہوگیا۔ مسٹر گھوسن کو سنگین الزامات کا سامنا ہے، کئی درجن اہم لوگوں کے معاملات کورٹ کیس چلنے کی صورت میں دنیا بھر کے سامنے کھل سکتے تھے۔ Nissanکار کمپنی کی اپنی شہرت کہ وہ ایک ذمہ دار بین الاقوامی کار مینو فیکچررہے کو نقصان پہنچ سکتا ہے وغیرہ ایسی اہم عوامل ہیں، جنہیں اس فرار میں خفیہ طریقہ سے حصہ دار بننے کے امکانات کورد نہیں کیاجاسکتا؟۔ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کی ایک قیمت ہے دوسری طرف 7000ملازمین رکھنے والی بین الاقوامی کار کمپنی کےسابق سربراہ کو جاپانی قوانین کے سامنے جواب دینا ہے، Rule of Lawکی ہر دم بات کرنے والوں کیلئے اچھا موقع ہے کہ وہ عمل کرکے دکھائیں۔ اللہ نیا سال ہم سب کیلئے بہتریاں لانے والا بنائے۔