قیامِ پاکستان کے بعد دو طرح کا ادب تخلیق ہوا بلکہ اب تک ہو رہا ہے۔ پہلی قسم وہ ہے، جس میں خالص ادبی پس منظر رکھنے والے سکہ بند ادیب ہوتے ہیں، جنہوں نے کہانیوں کو افسانوں اور ناولوں کی صورت دی جبکہ دوسری قسم وہ ہے، جس کے لکھنے والوں کا تعلق عوامی مقبولیت سے رہا ہے، ایک عام خیال یہ ہے کہ ان تخلیق کاروں کی کہانیاں خالص ادب کی شرط پر پوری نہیں اُترتیں اور نہ ہی ادبی ناقدان کہانیوں کو ادب تسلیم کرتے ہیں۔
ادبی ناقدین کے خیال میں اس طرح کی تخلیقات میں ادبی تقاضے پورے نہیں کیے جاتے، ہر کہانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد کار فرما ہونا چاہیے، صرف تفریح کی غرض سے لکھے گئے ادب کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے۔ عوام کے لیے صرف تفریح کی غرض سے لکھے جانے والے ادب کو’’ڈائجسٹ کا ادب‘‘ کہا اور لکھا گیا، یہ الگ بات ہے، اس کے لکھنے والوں کو عوامی مقبولیت کی سند حاصل رہی ہے۔
اس طرح کی تحریروں اور ادب کو حرفِ عام میں سطحی ادب کا نام بھی دیا گیا۔ بہرحال اس طرح کی کہانیاں لکھنے والوں نے اپنے قارئین کا وسیع حلقہ بنایا۔ قیامِ پاکستان کے بعد، ڈائجسٹ اور عوامی کہانیوں کے حوالے سے جو نام سامنے آئے، انہی میں سے ایک’’سلمیٰ کنول‘‘ تھیں۔ اردو زبان میں ڈائجسٹ اور ناول پڑھنے والے ان کے نام سے بخوبی واقف ہیں۔
ساٹھ کی دہائی میں سلمیٰ کنول کے ناولوں کو شہرت ملنا شروع ہوئی، پھر یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ دراز ہوتا چلاگیا۔ انہوں نے اپنے طویل مدتی ادبی کیرئیر میں 40 سے زائد ناول تخلیق کیے، جن میںکہانیوں کے مرکزی خیال، خواتین کی ذات اور مسائل کے اردگرد ہی گھومتے تھے، یہی وجہ ہے، ان کو پڑھنے والے قارئین میں بھی بڑی تعداد خواتین ہی کی تھی۔
انہی کی ایک ہم عصر ناول نگار رضیہ بٹ کو بھی اس طرح کے ناول لکھنے میں ملکہ حاصل تھا، یہ کہنے میں کچھ عار نہیں، ان دونوں خواتین ناول نگاروں کے مابین عورتوں پر کہانیاں لکھنے کا ایک مقابلہ سا تھا، جس میں دونوں نے بھرپور توانائی سے ناول لکھے اور دونوں کو خواتین قارئین کی طرف سے پذیرائی نصیب ہوئی، بلکہ مردوں کابھی ایک بڑا حلقہ ان کی کہانیوں کا مداح رہا۔
سلمیٰ کنول کی ذاتی زندگی دُکھوں سے عبارت رہی۔ شادی کے بعد بیٹی کی صورت میں زندگی کا تحفہ ملا، لیکن کم عمری میں ہی وہ خدا کو پیاری ہوگئی، یہ صدمہ بھی ان کے لیے خاصا جان لیوا تھا، پھر معذوری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھیں، وہیل چیئر پر زندگی کے کئی سال بسر کیے۔ یہی تلخیاں تھیں، جنہوں نے انہیں گھر تک محدود کر دیا۔ 2005 کو لاہور میں وہ انتقال کرگئیں۔ انہوں نے ز ندگی گزارنے کے لیے لکھنے پڑھنے کے شوق کا ہی سہارا لیا۔ اسی کام میں پوری توانائی خرچ کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا، ان کی تخلیقات کو مقبولیت حاصل ہونے لگی۔
انہوں نے کئی دہائیوں پر مشتمل اپنے ادبی کیرئیر میں بے حد مقبولیت سمیٹی ، ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس سے زائد ناول تخلیق کیے۔ پاکستان میں ان کے ناولوں کو معروف اشاعتی ادارے سنگ میل، لاہور نے شایع کیا ہے۔ ان کے متعدد ناولوں پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنائے گئے۔ کچھ میں تو ان کو کریڈٹ ملا، لیکن کئی ایک منصوبے بھی ہیں، جس میں ان کی کہانیوں پر کسی دوسرے کا نام لگا دیا گیا۔ اس کا ایک بڑا حوالہ 2011 میں نجی چینل سے نشر ہونے والا ڈراما’’پانی جیسا پیار‘‘ ہے، جس کی کہانی سلمیٰ کنول کی لکھی ہوئی تھی، لیکن اس پر ڈراموں کے لیے مشہور چینل کی خاتون شخصیت نے اپنا نام لکھا اور نشر کر دیا۔
اس ڈرامے کی ہدایات سرمد سلطان کھوسٹ نے دی تھیں اور اسے بہترین ڈرامے کا ایوارڈ بھی ملا، لیکن اس پورے منظرنامے میں اصل لکھاری کا نام نظر انداز کیا گیا۔ بہرحال ان کے دو ناولوں ’’چپکے سے بہار آجائے‘‘ اور’’عندلیب‘‘ پر پاکستانی سینما میں دو فلمیں بنائی گئیں۔ یہاں ان کا پہلا ناول’’چپکے سے بہار آجائے‘‘ کو منتخب کیا گیا ہے، جس کو بطور ناول تو پسند کیاہی گیا، لیکن فلم کے پردے پر بھی اس کی کہانی سپرہٹ ثابت رہی۔
سلمیٰ کنول کے اس ناول’’چپکے سے بہار آجائے‘‘ کی کہانی ڈائجسٹ کی اکثر کہانیوں کی طرح روایتی طور پر خواتین کے گرد ہی گھومتی ہے۔ یہ دو ایسی لڑکیوں کی کہانی ہے، جو بہت گہری سہیلیاں ہیں، جس میں ایک بہت غریب جبکہ دوسری مالدار ہے۔ دونوں اچھی سیرت و صورت کی مالک ہیں، لیکن مالدار لڑکی کو ایک مہلک بیماری ہے، جس کی وجہ سے اس کی زندگی کے دن گنے جا رہے ہیں، اس کی ماں چاہتی ہے، وہ اس کو زندگی کی سب خوشیاں دے، جس کے لیے وہ ہر طرح کے جتن کرتی ہے۔
دوسری طرف غریب لڑکی زندگی کی تمام خوشیوں کو سمیٹ رہی ہوتی ہے، جس میں روایتی طور پر محبت کی صورت میں اپنے ہونے والے شوہر سے منگنی کی خوشی بھی شامل ہے۔ کہانی کے ایک موڑ پرآکر یہ غریب لڑکی لالچ میں آجاتی ہے اور ہونے والے شوہر کی شادی اپنی مالدار سہیلی سے کروا دیتی ہے، یہ سوچ کر، وہ کچھ عرصے میں مر جائے گی، لیکن نتیجہ الٹ ہوتا ہے، وہ شخص سچ مچ میں اس مالدار لیکن بیمار لڑکی کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے ، پھر اپنی ماندہ زندگی اس کے نام کرنے کو تیار ہوجاتا ہے، اس دوران وہ لڑکی بھی صحت یاب ہوتی ہے، یوں وہ غریب لیکن لالچی لڑکی اپنے لالچ کے ہاتھوں محبت کی دولت سے بھی محروم ہو جاتی ہے۔
پاکستانی سینمامیں اس ناول پر’’مہمان‘‘ کے نام سے فلم بنائی گئی، جس کے فلم ساز اور ہدایت کار پرویز ملک تھے، جبکہ فنکاروں میں بابرہ شریف اور راحت کاظمی نے فنکار جوڑی کے طور پر اپنی زندگی کا بہترین کام اس فلم میں کرکے شائقین کے دلوں کو چھولیا۔ فلم کے دیگر فنکاروں میں نجمہ، مینا شوری، نگہت سلطانہ، علائوالدین، نیر سلطانہ، بدیع الزماں شامل تھے۔ یہ کہانی تو ناول نگار سلمیٰ کنول کی ہی لکھی ہوئی تھی، لیکن اسکرین پلے ہدایت کار پرویز ملک نے ہی لکھا، جبکہ مکالمے معروف گیت نگار مسرور انور نے تحریر کیے تھے۔
فلم کی موسیقی معروف موسیقار ایم اشرف نے دی تھی، جبکہ گیت نگار بھی مسرورانورہی تھے، گلوکاروں میں ناہید اختر، مہناز، احمد رشدی اور غلام عباس نے اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ اس فلم کو 1978 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا اور اسے باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے ، اگر کہانی اچھی ہو تو اس کو بہت اچھے طریقے سے فلمایا بھی جاسکتا ہے۔
سلمیٰ کنول کا ناول’’چپکے سے بہار آجائے‘‘ پر بننے والی مقبول پاکستانی فلم’’مہمان‘‘ اس بات کی ایک روشن مثال ہے۔ ہمارے فلم سازوں کو چاہیے، روایتی کہانیوں اور خالص ادب دونوں سے استفادہ کرتے ہوئے وہ اچھی فلمیں تخلیق کریں تاکہ پاکستانی سینما میں کہانی کے بحران سے نمٹا جائے اور اچھی کہانیوں پر فلمیں بناکر فلمی صنعت کو مضبوط کیا جائے۔