• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیانے کہتے ہیں کہ بُرے دوستوں سے تنہائی بہتر ہے، جبکہ تنہائی سے بہتر کتاب کا مطالعہ ہے ،اسی لیےکتاب کوانسان کابہترین دوست کہا جاتاہے۔ نئی نسل کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاکے بڑھتے ہوئے رجحان نے نسل ِ نو میں کتاب کی اہمیت ختم تو نہیں لیکن کم ضرور کر دی ہے۔ ایک وقت تھاجب فارغ اوقات میں طلبہ نصابی کتب کے علاوہ بھی کتاب کا مطالعہ کرتے تھے، یہاں تک کہ گلی محلے اوربازاروں میں لائبریریاں قائم تھیں، کتابیں نہایت ارزاں قیمت پر کرایے پر دستیاب تھیں، جس سے نہ صرف طالب علموں کی معلومات میں اضافہ ہوتا تھا بلکہ یہ کتب اردو اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کا سبب بھی بنتی تھیں ۔ 

وقت کے ساتھ ساتھ لائبریریاں ختم ہوتی چلی گئیں اور اب یہ عالم ہے کہ کسی بھی گلی محلے میں لائبریری کا نام ونشان تک نہیں۔ سرکاری سطح پر چندایک لائبریریاں قائم ہیں لیکن آج کے طالب علموں میں کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہونے کی وجہ سے وہ بھی ویران نظر آتی ہیں۔مشہور مقولہ ہے’’ ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں‘‘،یعنی مطالعے کی اہمیت کو کم یاختم نہیں کیا جاسکتا، بہترین معلومات آپ کو رہنما بھی بنا سکتی ہیں، اگر ہمیں نسل نو کی بہتر تربیت کرنی ہے تواس کا رشتہ کتاب سے مستحکم کرنا ہوگا،جس کے لیے سرکاری و نجی سطح پر کوششیں کی جاتی رہی ہیں ۔گزشتہ دنوں اس سلسلے کی ایک کڑی ہمیں شہر کی معروف میٹروپول چورنگی کی دیوارکے گرِدبننے والی’’اسٹریٹ لائبریری‘‘کی شکل میں نظر آئی۔یہ اسٹریٹ لائبریری حکومت سندھ اور کمشنر کراچی افتخار شالوانی کی مشترکہ کوشش ہے اور نوجوانوں میں مطالعے کا شوق بڑھانے اور کتب بینی کی طرف راغب کرنے کا ایک اچھوتا منصوبہ ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک میٹروپول کا فٹ پاتھ ناجائز تجاوزات کا گڑھ تھا،شہر کراچی کے بیشتر فٹ پاتھوں کی طرح یہاں بھی چلنے کے لیے جگہ نہیں تھی۔کمشنر کراچی کی ذاتی کوششوں کی بنا پریہاں قبضہ ختم کروا کر ’’اسٹریٹ لائبریری‘‘کا قیام عمل میں لایا گیا۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہاں کی دیواروں کو بانی پاکستان محمد علی جناحؒ، فاطمہ جناحؒ، علامہ اقبال ؒاور لیاقت علی خانؒ کے علاوہ ملک کی تاریخی عمارات پر مشتمل آرٹ ورک سے مزین کیا گیا ہے۔نقش و نگار سے منقش دیواریں اس جگہ کو مزید جازب نظر کردیتی ہیں۔

ان دیواروں کے درمیان لکڑی کی الماریاں بنائی گئی ہیں ،جن میں مختلف موضوعات پرمبنی کتابیں رکھی گئی ہیں۔ یہاں نوجوانوں کے ساتھ بزرگوں اور خواتین کا بھی ہجوم دکھائی دیتا ہے،گو کہ ٹریفک کے شور کی وجہ سے یہاں مطالعہ کرنامشکل ضرور ہے ،لیکن سڑک کنارے علم کا خزینہ مل جانے اور اس سےفائدہ اٹھانے کی خوشی یہاں موجودنوجوانوں کے چہروں پرعیاں ہوتی ہے۔ہمارا بھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔اس چھوٹی سی جگہ پرکتابوں سے دل چسپی رکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ 

اسٹریٹ لائبریری
افتخار شالوانی،کمشنر کراچی

زیادہ تر نوجوان دل چسپی لیتے ہوئے دکھائی دیے،اس دوران ورق گردانی کرتے ہوئے چند طلبا سے بات کرنے کا بھی موقع ملا،انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علم حسان احمد کا کہنا تھا کہ’’میں صبح روزانہ یونیورسٹی جانے کے لیے یہاں سے مطلوبہ بس لیتا ہوں، بہت خوشی ہوئی جب یہاں سے تجاوزات کا خاتمہ کر کے لائبریری بنائی گئی،اب میں ذرا پہلے آکر بس کے انتظار کے ساتھ نت نئی کتابیں پڑھتا ہوں ،اس طرح میرا مطالعے کا شوق پورا ہونے کے ساتھ معلومات میں بھی اضافہ ہورہا ہے‘‘۔

سرکاری اسکول کی میٹرک کی طالبہ اقصیٰ کا کہنا تھا کہ’’ ہمارے اسکول میں لائبریری نہیں ہے، میں جب یہاں سے گزرتی ہوں تو کچھ وقت یہاں ضرور گزارتی ہوں،مجھے یہاں کئی ایسی کتابیں پڑھنے کو ملی ہیں جو انٹرنیٹ پر بھی دستیاب نہیں ،ہوسکتا ہے کہ یہ کتب انٹرنیٹ پر ہوں لیکن میرے وسائل کم ہیں لہذا میں ان کتابوں سے مستفید ہو رہی ہوں۔ 

میں پاکستان کے موسم اور جغرافیہ کی کتابیں پڑھتی ہوں‘‘۔اسٹریٹ لائبریری میں موجود نوجوانوں کا جوش خروش اور اس کاوش کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے ہم نے اس منصوبے کے روح رواں کمشنر کراچی افتخار شالوانی کے آفس کا رخ کیا،ایک مختصر ملاقات میں انہوں نے اس منصوبے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ،’’ اسٹریٹ لائبریری کا تصور درحقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں کتابوں کی اہمیت اجاگر ہو اور انہیں اس بات کا اندازہ ہو کہ کتابیں کس قدر ضروری ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمارے شہر کے ایسے کارنرز یا سڑکیں جو ضائع ہو رہی ہیںانہیں ایک اچھے مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔اس لیے ہم نے سوچا کیوں نہ ایسے حصے کو تعمیری کام کے لیے استعمال کیا جائے۔لہذمیٹروپول کے پاس ایک فٹ پاتھ کا کارنر ہے، جس پر قبضہ کر لیا گیا تھا، اسے ختم کروایا اور وہاں سیٹیں اور بُک شیلفس لگوائیں۔بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے یوم پیدائش 25 دسمبر کواسٹریٹ لائبریری کا افتتاح کیا گیا تھا۔

ابھی ہم نے صرف ایک لائبریری بنائی ہے ،اسے symbolic بھی کہہ سکتے ہیں، ظاہر ہے یہاں بیٹھ کر پڑھنا مشکل ہوگا لیکن لوگوں کو کتاب کی اہمیت کا اندازہ ضرور ہوجائے گا اور اس بات کا اندازہ بھی ہوگا کہ بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کے لیے لائبریری کس قدر ضروری ہوتی ہے ۔

کیوں کہ شہر میں پہلے سے موجود لائبریریوں کی حالت بھی درست نہیں ہے، طلبہ یا بزرگ حضرات عام طور پر وہاں نہیں جاتے ،اسٹریٹ لائبریری کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ اس جانب متوجہ ہوں گے اور پڑھنے کا شوق بڑھے گا۔اس سوال کے جواب میں کہ اس طرز کی مزید اسٹریٹ لائبریریز بنانے کا ارادہ ہے؟

افتخار شالوانی کا کہنا تھا کہ’’ ابھی تو یہ آغاز ہے، لیکن ہمارا ارادہ ہے کہ ہر ڈسٹرکٹ میں سڑک کنارے ایسے کارنرز کواستعمال کیا جائے جن پر یا تو قبضہ ہو گیا ہے یا وہ بے مصرف ہیں‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ اس کوشش کے لیے آپ کو نجی سیکٹر سے تعاون حاصل ہے؟ افتخار شالوانی کا کہنا تھا کہ’’ جی،اس میں نجی اور سرکاری سیکٹر کی یکساں کوششیں ہیں، خاص کر کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس پروجیکٹ میں خاص دل چسپی لی ہے،ان کا کہنا ہے کہ پورے کراچی کی دس اہم سڑکیں ہمیں خوب صورت بنانی ہیں ،یہ اسٹریٹ لائبریری اسی پروجیکٹ کا حصہ ہے‘‘۔اسٹریٹ لائبریری میں کل کتنی کتابیں ہیں؟کمشنر کراچی کا کہناتھا کہ،’’یہاں لگ بھگ چھے سو کتابیں ہیں جو تاریخ،ادب،معیشت،ریاضی اور انگریزی کی ہیں۔

یہ کتابیں ہمیں علم دوست لوگوں نے عطیہ کی ہیں۔ان کتابوں کے لیے ہم نے کوئی خرچہ نہیں کیا۔ہم نے سلوگن دیا ہےTake a book, Leave a book۔ اس کے مطابق کراچی کا ہر شہری’’ لائبریرین ‘‘ہے وہ اپنی ذمے داری کو سمجھتے ہوئے ان کتابوں کی حفاظت کرے اور انہیں جہاں سے اٹھائے، وہیں رکھے‘‘۔افتخار شالوانی کا کہنا تھا کہ’’ یہ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے اہم قدم ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں شہریوں کی طرف سے رسپانس بہت اچھا ملاہے۔لوگ یہاں رات کو بھی بینچز پر بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔

زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے جو کتاب پڑھنے میں بہت دل چسپی لیتے ہیں، یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ موبائیل ،انٹرنیٹ کے اس دور میں جب یہی کہا جاتا ہے کہ نوجوان زیادہ وقت انٹرنیٹ کو دیتے ہیں ،بہت اچھا لگتا ہے کہ ہمارے نوجوان کتاب پڑھنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ کل کچھ لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ اس کارنر پر معذور افراد کو تعلیم دینا چاہتے ہیں، تو یہ ایک اچھا رجحان ہے کہ تعمیری سرگرمیاں ہوں۔

دراصل میں خود بھی کتاب دوست انسان ہوں ،کتابوں سے محبت کرتا ہوں۔کوشش کی ہے کہ معاشرے کی بھلائی کے لیے کچھ کیا جائے، میری ذاتی کاوش کہ ساتھ یہ’ ٹیم ورک‘ ہے۔

ہم سب مل کر کام کرتے ہیں۔بہت جلد شہر کراچی کی دیگر سڑکوں اور کارنرز پر ہم مزید لائبریریاں بنائیں گے،جہاں سے لوگوں کا زیادہ گزر ہو ایسی جگہیں زیادہ بہتر ہیں‘‘۔ 

تازہ ترین