کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ میں پرویز مشرف کا وکیل رہ چکا ہوں اس لئے ان کے کیس پر وفاقی حکومت کا موقف پیش نہیں کرسکتا۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان واپس وفاقی حکومت میں آجائے گی۔
پی ٹی آئی کی ذمہ داری ہے کہ کراچی سے متعلق اپنے وعدے پورے کرے،سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ آنے والے دنوں میں عمران خان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، ان مشکلات کے نتیجے میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو فائدہ نہیں ہوگا۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ وزیرقانون بننے کے بعد پرویز مشرف کے کسی معاملہ پر میں نے مشاورت نہیں کی، میں پرویز مشرف کا وکیل رہ چکا ہوں اس لئے ان کے کیس پر وفاقی حکومت کا موقف پیش نہیں کرسکتا۔
میری پریس کانفرنس پرویز مشرف کیس کے فیصلے پر نہیں ایک جج کے لکھے ہوئے صرف ایک پیراگراف پر تھی، تین ججوں میں سے ایک جج نے پرویز مشرف کو بری کیا دوسرے نے انہیں سزا دی لیکن اس پر میں نے کوئی بات نہیں کی، تیسرے جج نے پرویز مشرف کی لاش کو گھسیٹنے اور لٹکانے کی آبزرویشن دی اس پر بطور وزیرقانون رائے دی تھی۔
اس پریس کانفرنس کا تعلق پرویز مشرف کی ذات یا کیس سے نہیں ان جج صاحب کی آبزرویشنز سے تھا۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے خصوصی عدالت کی تشکیل غیرآئینی قرار دینے کے فیصلے پر حیران نہیں ہوں۔
سپریم کورٹ نے 2009ء میں پرویز مشرف کے اقدامات کو غیرآئینی قرار دیا تھا، 2013ء میں مولوی اقبال حیدر پرویز مشرف کیخلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی پٹیشن لائے تو سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم آرٹیکل چھ کی کرمنالٹی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ ٹرائل پر اثر انداز ہوگا، 2014ء میں پرویز مشرف کے ریویو پر سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ نے کہا کہ آرٹیکل چھ کے دو پہلو آئینی اور کرمنل ہوتے ہیں۔
آئینی پہلو 2009ء کے سندھ ہائیکورٹ بار کے فیصلے نے طے کردیا ہے، لیکن کرمنل پہلو کہ کسی شخص نے آرٹیکل چھ کا جرم کیا اس پر کیا اسے سزا جزا ہونی چاہئے یہ معاملہ ابھی اوپن ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے حساب سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں تھا کہ جنرل مشرف نے آرٹیکل چھ کے کرمنل لاء کی کوئی خلاف ورزی کی۔بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں subversion کی بات نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ آئینی پہلو سے ہم سمجھتے ہیں کہ تین نومبر کا فیصلہ درست نہیں تھا لیکن اس کی کرمنالٹی پر ہم نہیں جائیں گے ، سپریم کورٹ کا آرٹیکل چھ کی کرمنالٹی پر کوئی فیصلہ موجود نہیں ہے۔
جرم اور سزا جزا کرمنل لاء ہے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل چھ میں جرم اور سزا جزا پر کسی قسم کا فیصلہ نہیں دیا، اٹھارہویں ترمیم سے پہلے آرٹیکل چھ میں دو پوائنٹس ایک abbrogation اور دوسرا subversion تھا۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل چھ abbroagation، subversion کے ساتھ suspending the constitution بھی شامل ہوگیا، پرویز مشرف نے ایمرجنسی اٹھارہویں ترمیم سے قبل لگائی تھی۔
پرویز مشرف نے آئین کو abbrogate نہیں کیا تھا جبکہ لفظ subversion کی کوئی تعریف موجود نہیں ہے، نواز شریف نے 1998-99ء میں ایمرجنسی لگادی اور بغیر آئینی ترمیم کے فوجی عدالتیں بنادیں جسے سپریم کورٹ نے غیرآئینی قرار دیا کیا وہ constitution subvert نہیں ہے کیا اس میں آرٹیکل چھ نہیں لگنا چاہئے۔
آصف زرداری نے جی آئی ڈی سی کا قانون پاس کیا اسے بھی سپریم کورٹ نے غیرآئینی قرار دیا تو کیا وہ بھی subversion ہے، کرمنل لاء کا دائرہ اختیار یہ ہے کہ جب تک کوئی جرم وضاحت سے نہیں لکھا جاتا تب تک کسی قسم کی کرمنل پراسیکیوشن نہیں ہوسکتی۔
وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کرمنل لاء میں سزا سے پہلے چارج اسٹیبلش کرنا ہوتا ہے، مشرف کیس میں چارج اسٹیبلش کرنا اور پھر سزا دینی تھی۔
سپریم کورٹ کا 1999ء کا ایک فیصلہ کہتا ہے کہ خصوصی عدالتوں میں چاہے ہائیکورٹ کے ججز ہوں لیکن وہ ہائیکورٹ نہیں ہوتیں، ہائیکورٹ آرٹیکل 199میں جو دائرہ اختیار ایکسرسائز کرتی ہے اس طرح کی تمام خصوصی عدالتیں ہائیکورٹ کی ماتحت ہوتی ہیں۔
خصوصی عدالت کا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ماتحت نہیں ہے، لاہور ہائیکورٹ نے آرٹیکل 199میں آئینی دائرہ اختیار کے تحت فیصلہ دیا ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ وہ تمام کیسز جو past and close transaction نہیں ہیں وہ تمام exposed ہیں، یہ چیز اس لئے past and close transaction نہیں تھی کیونکہ یہ فیصلہ ابھی آیا ہے، انور منصور خان جب پرویز مشرف کے وکیل تھے تو انہوں نے یہ چیلنج بھی کیا۔
یہ مصطفیٰ امپیکس کا کیس نہیں بلکہ اٹھارہویں ترمیم کا کیس ہے، اٹھارہویں ترمیم کی تاریخ 19اپریل 2010ء ہے، خصوصی عدالت وفاقی حکومت نے بنانی تھی جسٹس افتخار چوہدری کیوں بنارہے تھے، past and close transaction تب ہوتا ہے جب fianlity آجائے۔
اگر فیصلہ آجاتا اور تب تک چیلنج نہ کیا جاتا تب بات تھی،میری، انور منصور خان اور سلمان صفدر کی اسپیشل کورٹ میں درخواستیں تھیں کہ خصوصی عدالت کی تشکیل غیرقانونی ہے۔