• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتصادی درجہ بندی کا تعین کرنے والی دنیا کی تین بڑی ایجنسیوں میں سے ایک اور نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی معیشت میں بہتری کی نشاندہی کی ہے تاہم بعض کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جن کی وجہ سے خود کفالت کی منزل تک پہنچنے کے لئے حکومت کی معاشی ٹیم کو ابھی مزید بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے مستقبل کا معاشی منظر نامہ مستحکم اور بہتر ہو رہا ہے۔ مالی خسارہ کم ہوا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں رواں مالی سال کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کے 2.1فیصد کے مساوی ہے جو آئندہ مالی سال کے دوران مزید کمی کے بعد 1.9فیصد رہ جائے گا جبکہ گزشتہ برس یہ 4.9فیصد تھا، معاشی ڈسپلن کو سراہتے ہوئے ایجنسی کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات کے باعث بیرونی اکائونٹس میں بہتری آئی جبکہ آئی ایم ایف کے پروگرام اور پالیسی ایکشن نے معاشی خرابیاں دور کرنے میں مدد دی۔ اندرونی سیکورٹی صورتحال بہتر ہونے سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی جس سے کاروباری برادری میں اعتماد پیدا ہوا۔ اسٹیٹ بینک کے لچکدار فارن ایکسچینج ریٹ کے باعث غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔ حکومت اسٹیٹ بینک سےقرضے نہ لے کر مقامی قرضوں کے بوجھ پر قابو پانے میں کامیاب رہی، مناسب اصلاحات کے باعث عالمی بینک نے کاروباری آسانیوں سے متعلق پاکستان کی درجہ بندی بہتر کرتے ہوئے 136سے 108کر دی ہے۔ تاہم ایجنسی کے مطابق مالی خسارہ اب بھی زیادہ ہونے، محصولات کے اہداف پورے نہ ہونے اور افراطِ زر کو پاکستان کی معاشی کمزوریاں قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ سخت گیر مائکرو اکنامک پالیساں جی ڈی پی کی شرح کو سست بنا رہی ہیں روپے کی قدر میں کمی اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے سے افراط زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ سیکورٹی کے خطرات سے بھی سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔ ایک غیر ملکی ایجنسی کے اس تجزیے کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کا یہ اعلان یقیناً حوصلہ افزا ہے کہ 2020عوام کے لئے معاشی اعتبار سے آسانیوں کا سال ہو گا۔ اسلام آباد میں وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے درست فیصلے کرکے معیشت کو انتہائی خطرے کی حالت سے نکالا ہے لیکن وزیراعظم سے تاجروں کی ملاقات کے بارے میں ایف پی سی سی آئی کے صدر کا کہنا ہے کہ حکومت نے شرح سود اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی اور شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اگر حکومت اس حوالے سے فوری اقدامات نہیں کرتی تو صنعتی یونٹ جو پہلے ہی چالیس فیصد پیداواری صلاحیت کے ساتھ چل رہے ہیں بند ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔ اس امرمیں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وژن کے مطابق زبوں حال معیشت کی بحالی کے لئے کئی مثبت اقدامات کئے ہیں جن کے بہتر نتائج کی توقع ہے۔ بین الاقوامی اداروں نے بھی ان پر اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن جب تک ان کے ثمرات نچلی سطح پر عوام تک نہیں پہنچتے اس وقت تک ان کی افادیت سوالیہ نشان رہے گی۔ زمینی حقائق اس وقت یہی ہیں کہ غریب اور متوسط طبقہ بری طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ عام آدمی کو اس سے غرض نہیں کہ پاکستان کی معاشی درجہ بندی میں کتنی بہتری آئی وہ تو اس وقت مطمئن ہو گا جب اسے روز مرہ استعمال کی اشیا اپنی قوت خرید کے مطابق ملیں گی اس لئے حکومت کی اولین ترجیح معیشت میں بہتری ہی رہنی چاہئے اور اس سلسلے میں اپنی تمام تر توجہ اقتصادی اقدامات پر مرکوز رکھنی چاہئے۔

تازہ ترین