• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی یونین کے وزراء خارجہ کا ہنگامی اجلاس برسلز میں منعقد ہوا جس میں تقریباً تمام اراکین ممالک کے وزراء خارجہ شریک تھے۔ اجلاس نے متفقہ طور پر 2015ء میں امریکہ اور ایران کے مابین جو جوہری پروگرام منسوخ کرنے کا معاہد کیا تھا اس کی حمایت کی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یک طرفہ فیصلہ کو وہ معاہدہ توڑ رہے ہیں اس کی شدت سے مخالفت کی گئی۔ اجلاس کے شرکاء کا استدلال یہ تھا کہ معاہدہ میں دیگر فریق برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی بھی شامل تھے اور متفقہ طور پر طے پایا تھا ،مگر امریکی صدر کا فیصلہ درست نہیں ہے۔

اس ہنگامی اجلاس کے اہم ترین سفارت کار جوزف بوریل نے کہا کہ ایران نے امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ وہ ایرانی جنرل کی ہلاکت کا بدلہ ضرور لے گا اور جوہری معاہدہ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی دوبارہ کوششیں کی جائیں گی۔ 

نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے جین اسٹالبزگ نے بھی اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ہماری داعش سے جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے بہت جدوجہد کی ہے جس کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ داعش جاری حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کرلے گی اور اس تنظیم کے دیگر جنگجو بھی سر اٹھائیں گے۔ اس لئے امریکہ اور نیٹو کا اتحاد اور ہم آہنگی ضروری ہے۔

ان حالات میں ایران پر زیادہ دبائو نہ ڈالا جائے کہ وہ جوہری طاقت کے حصول کا حتمی فیصلہ کرلے۔ جنرل سیکرٹری نے مزید کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراق میں امریکی اور غیرملکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے اور عراق میں شدید ردعمل سامنے آرہا ہے، مگر ہمارا اتحاد ضروری ہے۔

جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکوماس کا کہنا تھا کہ جرمنی بھی مشرق وسطیٰ میں داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ اور نیٹو ممالک کے ساتھ ہے۔ انہوں نے بھی اس موقف کی تائید کی کہ اگر امریکہ عراق سے فوجی واپس بلوالیتا ہے تو پھر اتحادیوں کو مشکلات پیش آسکتی ہیں اور داعش تنظیم دوبارہ منظم ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد داعش فوری طور پر یورپی ممالک میں اپنی دہشت گرد کارروائیاں شروع کرسکتی ہے۔

ڈنمارک کے وزیر خارجہ جیپ کاڈے نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر داعش اور اس کے دہشت گرد اتحادی منظم ہونے میں کامیاب ہوگئے تو مشرق وسطیٰ اور یورپ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین کے سفارت کار بوریل ،نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے امریکہ ایران جوہری معاہدہ سے الگ ہونے کے اعلان کے باوجود ہمارا موقف ہے کہ معاہدہ برقرار ہے اور یہ یک طرفہ فیصلہ ہے۔ ہم ایران سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ معاہدہ کی پاسداری کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک اچھی بات ہے کہ ایران جوہری قوت نہیں ہے ،ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا مگر ایرانی قوم اور قیادت مہذب اور سمجھ دار ہے۔ 

2018ء میں صدر ٹرمپ نے معاہدہ سے الگ ہونے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں جس سے ایرانی عوام کو مزید مسائل اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس پر ایران نے بھی سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ 

اس کے باوجود ایران نے بین الاقوامی جوہری ایجنسی آئی۔اے۔ای۔اے سے معاہدہ نہیں توڑا ہے۔ یہ ایک مثبت فیصلہ ہے۔تاہم بوریل نے ایران پر زور دیا کہ وہ معاہدہ پر قائم رہے ہم سب معاہدہ کی تائید کرتے ہیں۔ اگر ایران نے کوئی انتہائی قدم اٹھالیا تو اس کا ہی نہیں بلکہ سب کو اس کا نقصان ہوگا اور پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔

فرانسیسی وزیر خارجہ جان لی ڈین نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ فرانس معاہدہ جاری رکھنا چاہتا ہے اور یہ درست ہے کہ ایک فریق کے الگ ہونے سے معاہدہ ختم نہیں ہوا پورا یورپ اور دیگر ممالک بھی جوہری معاہدہ کے حق میں ہیں۔ فرانس نے ایران سے کہا کہ وہ ایک دو سال بعد اپنی جوہری تنصیبات کا بین الاقوامی ایجنسی سے معائنہ کراتا رہے تاکہ تمام شکوک و شبہات دور ہوسکیں۔ 

برطانیہ وزیر اعظم کے بورس ولسن نے ایرانی صدر حسن روحانی سے فون پر بات کی ہے۔ اس بات چیت میں برطانوی وزیر اعظم نے ایرانی صدر کو یقین دلایا کہ ہم معاہدہ کی حمایت کرتے ہیں۔ ایران بھی ضرور ایسا ہی کرے گا۔ انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹا لے یا کم کردے۔

واضح رہے کہ 2015ء میں جوہری معاہدہ طے پانے کے بعد سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ایران پر سے اقتصادی پابندیاں نرم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے یورپی ممالک کا دورہ کرکے فرانس، برطانیہ اور اٹلی سے چند اہم تجارتی معاہدے طے کئے تھے اور ایران نے سیاحوں کے لئے بھی بیشتر سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 

اس معاہدہ پر ایرانی عوام نے زیادہ خوشی کا اظہار کیا تھا۔یورپی یونین میں شامل تقریباً تمام ممالک امریکی صدر ٹرمپ کے سخت رویہ پر پریشان ہیں ان کا موقف ہے کہ ایران سے کیا ہوا جوہری معاہدہ برقرار ہے اور ایران پر زیادہ دبائو نہ ڈالا جائے۔ اقتصادی پابندیاں نرم کی جائیں۔ اگر امریکہ اپنی ضد پر ڈٹا رہا تو ایران بھی جوابی کارروائی کرسکتا ہے، اس کو عراق نہ سمجھا جائے۔

تازہ ترین