صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لوگ گرتے ہوئے بالوں کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں 50سال سے زائد عمر کے 85فیصد مرد حضرات بال گرنے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں کروڑوں خواتین اینڈوجینک ایلوپیشیا کی وجہ سے بال جھڑنے کی بیماری میں مبتلا ہورہی ہیں ۔ اس بیماری کے باعث مردوں میں سر کے سامنے کی طرف گنج پن ہوتا ہے جبکہ عورتوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ہیئر لائن’M‘ کی شکل بنانے لگتی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق، فضائی آلودگی بالوں کے جھڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس تحقیق کے دوران انسانی کھوپڑی کے خلیوں پر دھول اور ایندھن کے ذرات کے اثرات کی جانچ کی گئی۔ محققین نے دریافت کیا کہ عام آلودگیوں کے مقابلے میں فضائی آلودگی نے بالوں کی نشوونما اور انہیں برقرار رکھنے کے ذمہ دار پروٹینز کی چارسطحوں کو کم کردیا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہےکہ جب ہوا سے پیدا ہونے والے ذرات کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے تواس کا اثر بھی بڑھ جاتاہے۔ تحقیق سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ صنعتی شہروں یا کارخانوں کے قریب رہنے والے افراد میں بالوں کے گرنے کا خطرہ زیادہ ہے۔
فضائی آلودگی کینسر، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے خطرے کو پہلے ہی ظاہر کرتی رہی ہے اور ایک تخمینے کے مطابق اس سے ہرسال 42لاکھ اموات قبل ازوقت ہو جاتی ہیں۔ فضائی آلودگی کا یہ عنصر ڈپریشن اور والدین بننے کی صلاحیت میں کمی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ جنوبی کوریا کی کاسمیٹکس کمپنی کی مالی اعانت سے منعقد کردہ ایک اسٹڈی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہوا سے پیدا ہونے والی آلودگی اور بالوں کے جھڑنے کے مابین تعلق تلاش کرنے والے پہلی اسٹڈی ہے۔
تاہم، اسپین کے شہر میڈرڈ میں 28ویں یورپین اکیڈمی آف ڈرماٹولوجی اینڈ وینریولوجی کانگریس میں اس اسٹڈی کے سرکردہ محقق ہیوک چُل ووک کا اس کے نتائج کے بارے میں کہنا تھا، ’’لیبارٹری کے باہر اِن نتائج کی تصدیق کیلئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، دراصل ہماری تحقیق سائنسی نقطہ نظر سے دیکھتی ہے کہ جب بالوں کے نیچے موجود کھوپڑی کے خلیوں کو فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان پر کیا اثر پڑتاہے ؟ یہ تحقیق چونکہ لیبارٹری میں کی گئی تھی، لہٰذا مزید تحقیق کے ذریعے اس کی سمت متعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پتہ لگایا جاسکے کہ لوگوں کو روز مرہ کی آلودگی کا سامنا کرنے سے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔
اس تحقیق میں انسانی کھوپڑی کے10مائیکرو میٹر یا اس سے کم ڈایا میٹر میں موجود خلیوں کو پرکھا گیا تاکہ ان میں ڈیزل کی موجودگی کا پتہ چلایا جاسکے۔ اس کے علاوہ محققین نے خلیوں میں پروٹین کی سطح کا پتہ لگانے کے لئے بھی ایک سائنسی تکنیک استعمال کی، جسے ویسٹرن بلوٹنگ (Western Blotting) کہا جاتا ہے۔ مشاہدے کے دوران محققین کو کھوپڑی کے خلیوں میں بیٹا کیٹنن (Beta-catenin) کی سطح میں کمی، بالوں کی نشوونما میں شامل ایک پروٹین اور بالوں کی جڑ کے سوراخ کی نشوونما میں تنزلی نظر آئی۔
بالوں کی نشوونما اور انہیں برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار تین دیگر پروٹینز، سائکلن ڈی1(Cyclin D1)، سائکلن ای(Cyclin E) اور سی ڈی کے2 (CDK2) بھی متاثر ہوتے نظر آئے۔ اس وقت تو ان پروٹینز میں اور بھی کمی نظر آئی جب ان کا سامنا زیادہ آلودگی سے ہوا۔ بالوں کی جڑ کھوپڑی کے جس سوراخ میں ہوتی ہے، اسے فولیکل (follicle) کہتے ہیں۔ یہاں مخصوص خلیے پائے جاتے ہیں، انہیں ہیومن فولیکل ڈرمل پپیلا سیل (HFDPC)کہا جاتاہے۔ ہوا میں موجود مختلف ذرات نہ صرف فولیکل بلکہ ان میں موجود خلیوں اور پروٹینز پر بھی اثر انداز ہو رہے تھے۔
ہیوک چُل کے مطابق،’’جب انسانی کھوپڑی کے خلیوں کو فوسِل ایندھن (ڈیزل وغیرہ) جلانے سے پیدا ہونے والی عام فضائی آلودگیوں کا سامنا کرنا پڑا تو بالوں کی افزائش اور بالوں کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار خلیوں میں موجود پروٹینز نمایاں طور پر کم ہوگئے تھے یعنی خلیوں کو جس قدر زیادہ آلودگی کا سامنا کرنا پڑا، اس کا اثر اتنا ہی زیادہ ہوا۔ لہٰذا، نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جزوی طور پر فضائی آلودگی بالوں کے گرنے کا سبب ہو سکتی ہے‘‘۔
تحقیق میں صنف یا عمر کے حوالے سے بالوں کے جھڑنے میں کسی بھی ممکنہ اختلاف پر غور نہیں کیا گیا، تاہم ماہرینِ گنج پن نے بال گرنے یا گنج پن کی وجوہات میں جینیاتی کیفیات اور موروثی اثرات کے ساتھ فضائی آلودگی کو بھی شامل کرلیا ہے۔
فرینڈز آف دی ارتھ نامی این جی او کے پلیٹ فارم سے فضائی آلودگی کے خلاف مہم چلانے والی جینی بیٹس کا کہناہے، ’’یہ سائنسی ثبوتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ہمارے جسموں اور صحت پر فضائی آلودگی کے پریشان کن اثرات کو ظاہر کررہا ہے۔ حکومتوں کو صحت عامہ کے اس بحران سے نمٹنے کے لئے درکار قوت کے ساتھ فوری طورپر کام کرنا چاہئے۔
اس ضمن میں ہاتھ بٹانے کیلئے لوگوں کو نقل و حمل کیلئے کم آلودگی پھیلانے والی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف شہر صاف ستھرے اور صحت مند رہیں گے بلکہ موسمی تباہیوں کی وجہ بننے والے عوامل میں بھی کمی آئے گی‘‘۔