• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خورشید احمد، ریسرچ اسکالر

ادب زندگی کا اظہار اور معاشرے کے ظاہر و باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جو کچھ معاشرے پر گزر رہی ہوتی ہے اور جو کچھ معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے، ادیب اس کا احاطہ کرتاہے۔ وہ جو کچھ معاشرے میں دیکھتا ہے، اپنے مشاہدے سے اخذ کرتا ہے اس کو اپنے شعور و لاشعور سے فن کے سانچے میں ڈھال کر صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے۔ ادب قومی تہذیب کا آئینہ اور ترجمان ہوتا ہے۔کسی بھی قوم کی طرز گفتار اور نشست و برخاست کا اندازہ کرنا ہو تو اس کے فنون لطیفہ یعنی ادب، مصوری، اور موسیقی کا مطالعہ کرنا لازمی ہے۔

تہذیب انسانی طرز زندگی، بود و باش، رفتارو گفتار، عقیدے اور افکار ونظریات کا مظہر ہوتی ہے۔

ڈاکٹر طارق سعید تہذیب و ثقافت پر اپنی رائے کااظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’اقدار کا شعور جو ایک انسانی جماعت رکھتی ہے اور جن کے مطابق وہ اپنی زندگی کی تشکیل کرنا چاہتی ہے، تہذیب ہے۔‘‘

ڈاکٹر عابد حسین رقم کے نزدیک،’’تہذیب نام ہے اقدار کے ہم آہنگ شعور کا جو ایک انسانی جماعت رکھتی ہے،جسے وہ اپنے اجتماعی ادارات میں ایک معروضی شکل دیتی ہے،جسے افراد اپنے جذبات و رجحانات،اپنے سبھاؤ اور برتاؤ میں اور اُن اثرات میں ظاہر کرتے ہیں جو وہ مادی اشیا پر ڈالتے ہیں۔‘‘

تہذیب و ثقافت کو پرکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تہذیب اُن اقدار کا مجموعہ ہے جو ایک انسانی جماعت رکھتی ہے اورجن کے مطابق وہ روزمرہ زندگی گزارتی ہے نیز جن سے جماعت کی علیٰحدہ پہچان ہوتی ہے۔تہذیب اپنے اندر دو پہلوؤں کو رکھتی ہے، ظاہری پہلو اور باطنی پہلو۔ اخلاقی، جمالیاتی، روحانی قدریں، عقیدے، آرزوئیں اور آدرش باطنی پہلو میں شامل ہیں جو ایک قوم یا انسانی جماعت ارتقا کے سفر کے دوران تشکیل دیتی ہے۔ طرزِ اظہار،طرزِ زندگی، آدابِ گفت و شنید، آپسی رہن و سہن،میل جول، علوم و فنون وغیرہ تہذیب کے ظاہری پہلو میں شامل ہیں۔

کشمیری تہذیب و ثقافت اگرچہ قومی سطح پر دیگر ریاستوں کی طرح کچھ مشترکہ اقدار رکھتی ہے مگر اس کے باوجود اس میں کچھ ایسی چیزیں شامل ہیں جو اس کو ملک کی دوسری ریاستوں سے ممیز کرتی ہیں۔اس تفاوت کے کئی وجوہات ہیں۔ایک وجہ یہ ہے کشمیر ایک بالائی علاقہ ہے جہاں موسم کی تبدیلی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔یہاں جاڑے کے موسم میں شدید سردی رہتی ہے اور بیرونی رابطے مسدود ہوجاتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اس سردی کو ایک منتخب طبقہ جھیلتا ہے جس کی وجہ سے کشمیری تہذیب و ثقافت میں کچھ چیزیں ایسی شامل ہو گئی ہیں جو اس تہذیب کو ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے علیٰحدہ کرتی ہیں۔

معروف افسانہ نگارمنٹو کشمیری نژاد تھے اور اُنھیں اپنے کشمیری ہونے پر فخر تھا۔ ہر قوم ماضی میں جھانک کر اپنی جڑوں کو تلاش کرتی ہے اور یہ کام قومی وسماجی سطح کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی ہوتا ہے۔منٹو کے افسانوں میں بھی اس کی لےہے ،جس کی وجہ سے کشمیری تہذیب و ثقافت کے کئی پہلو اُن کے افسانوں میں شامل ہیں۔جن میں ’شغل‘ ٹیڑھی لکیر، موسم کی شرارت، بھیگو، نامکمل تحریر، مصری کی ڈلی، لالٹین، شیرو، پانچ دن، مزدوری، شانتی، آخری سلوٹ، ٹیٹوال کا کتا وغیرہ شامل ہیں۔

کشمیریوں میںرواداری، مہمان نوازی، احترام آدمیت اور معصومیت جیسی انسانی صفات ان میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔منٹو نے افسانے ’بھیگو ‘ میں اس کی بہترین عکاسی کی ہے۔ بھیگو ایک معصوم پہاڑی لڑکی کی کہانی ہے جو لوگوں کی چاپلوسی اور مکروفریب کا شکار ہو جاتی ہے۔اس کہانی کا واحد متکلم جو بھیگو کا عاشق ہوتا ہے لوگوں کی چاپلوسی اور مکروفریب کا شکار ہوتا ہے اور بھیگوکی پاک دامنی پر شک کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھیگو سے جدا ہو جاتا ہے۔ بھیگو اپنی پاک دامنی کو اپنے بھولے پن اور معصومیت کی وجہ سے ثابت نہیں کرپاتی جس کی وجہ سے وہ اپنی محبت کو بچانہیں پاتی ہے

اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظ کیجیے:

’’بھیگو !میں تمھارے چال و چلن کی سب کہانی سن چکا ہوں اور تمھارے سارے حالات سے باخبر ہوں ...کتنی بھولی بنتی ہو جیسے کچھ جانتی ہی نہیں ہو‘‘...’’مجھے یاد ہے،آپ نے مجھ سے کئی مرتبہ کہا تھا کہ پانی بھرنے نہ آیا کروں، بھینس نہ چرایا کروں۔شاید آپ اسی وجہ سے ناراض ہو رہے ہیں‘‘...’میں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی میری نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جائے۔ اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور گال آنسوؤں کی وجہ سے میلے ہو رہے تھے... بھیگو نے میرے جانے کے بعد اپنے شباب کو دونوں ہاتھوں سے لٹانا شروع کردیا اور دق کے مریضوں سے ملنے کی وجہ سے وہ خود اس کا شکار ہو گئی... اس مرض نے بالآخر اُسے قبر میں سلا دیا۔‘‘

افسانہ ’شغل‘ میںبھی کشمیریوں کی لاچاری،بے بسی اور مفلسی کی عکاسی ہے۔یہ کشمیری پہاڑی مزدوروں کی کہانی ہے جو حکمرانوں کے ظلم و ستم کے آگے بے بس اور لاچار نظر آتے ہیں۔اُن کی نظروں کے سامنے لڑکیوں کی عصمت کا سودا ہو جاتا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں پاتے ہیں، کیوں کہ معاشی طور پر ان کا اس قدر استحصال کیا گیا ہے کہ مشکل سے دو وقت کی روٹی مل پاتی ہے اور حکمرانوں کے زور و جبرکے آگے چپ سادھ لینے کے علاوہ اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔

افسانے ’شغل‘ سےزیرِنظر اقتباس ملا حظہ کیجیے:

’’دیہات میں روپے کا منہ دیکھنا بہت کم نصیب ہوتا ہے اس لیے ہم سب خوشی خوشی چھ آنے روزانہ پر سارا دن پتھر ہٹاتے رہتے ہیں...پتھروں کو سڑک پر سے ہٹانا تو خیر معمولی بات تھی،ہم تو اس اجرت پر ان پہاڑوں کو بھی ڈھانے پر تیار تھے...ہم سب کے پائجامے یا تو گھٹنوں پر سے گھس گھس کر اتنے باریک ہو گئے تھے کہ ان میں سے جسم کے بالوں کی پوری نمائش ہوتی تھی یا بالکل پھٹے ہوئے تھے۔‘‘

منٹو نے اسی افسانے میں ان نوجوانوں کی مفلسی اور حکمرانوں کے ظلم و جبر کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے :

ہمارا مطمح نظر کام کرنا اور اپنا پیٹ پالنا تھااور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ ہم میں سے کسی نے بھی اگر اپنے کام میں ذرا سی بھی سست رفتاری یا بے دلی کا اظہار کیا ہے تو تاش کی گڈی سے ناکارہ جوکر کی طرح باہر نکال کر پھینک دیا جائے گا۔ہم دل لگا کر کام کرتے تھے تاکہ ہمارے افسروں کو شکایت کا موقع نہ ملے۔اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہمارے افسر ہم سے بہت خوش تھے۔یہ کیوں کر ہو سکتا ہے،وہ بڑے آدمی ٹھہرے،اس لیے اُن کا جائز و ناجائز طور پر خفا ہونا بھی درست ہوتا ہے۔

کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں عام طور پر جو فصلیں کاشت کی جاتیں ہیں اُن میں مکئی، گیہوں، شہتوت، سیب، اخروٹ، خوبانی اور ناشپاتی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔کشمیر پر مبنی بیشتر افسانوں میں منٹو نے اس کا ذکر کیا ہے۔چند مثالیں ملاحظکریں:

’’سیب کے رس بھرے ہوئے ہاتھوں کو بچوں کے مانند اپنی پتلون سے صاف کر کے اس نے میرا ہاتھ بڑے جوش سے دبایا۔‘‘

’’جب وہ اپنے گھر میں داخل ہو گئی جو سڑک کے نیچے مکئی کے چھوٹے سے کھیت کے ساتھ بنا ہوا تھا۔‘‘

’’سڑک کے دائیں بائیں پہاڑوں اور ڈھلوانوں پر مکئی کے کھیت،رات کے خاکستری رنگ کے بڑے بڑے قالین معلوم ہوتے تھے۔‘‘(لالٹین)

’’مگو نالے کے ساتھ ساتھ اُگے ہوئے ناشپاتی کے درختوں کی ٹھندی ٹھنڈی چھاؤں،اخروٹ کے گھنے درختوں میں پرندوں کی نغمہ ریزیاں اور گیلی زمین پر سبز اور ریشمی گھاس،میرے دل و دماغ پر ایک خوش گوار تکان پیدا کر دیتی تھی۔‘‘

فطرت جس طرح کشمیر کے کھانے پینے، بول چال، کھیتی باڑی کے طور طریقوں کے پس منظر میں کام کرتی ہے اسی طرح یہاں کے لباس میں بھی اس کا بڑا دخل رہا ہے۔سرد ی کے موسم میں لوگ اون کے گرم کپڑے پہنتے ہیں۔گرمی کے موسم میں ریشم کے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ عام طور پر لوگ رنگین کپڑے پسند کرتے ہیں جس کے پس منظر میں فطرت کا عمل دخل ہے۔عورتوں کے لباس میں اس کا خاصا عمل دخل رہا ہے۔عورتوں کے لباس رنگین پھولوں، ہریالی، خوشنما بیل بوٹوں سے سجے ہوتے ہیں۔ ان کے لباس کو دیکھ کر فطرت کے عمل دخل کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔منٹو نے اس کی بہترین عکاسی کی ہے:

’’سبز لباس میں ملبوس وہ سڑک کے درمیان مکئی کا ایک قد دراز بوٹا معلوم ہو رہی تھی۔‘‘(بھیگو)

’’وہ گہرے سبز رنگ کا دوپٹا اوڑھے ہوئے تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آس پاس کی ہریاول نے اپنی سبزی اُسی سے مستعار لی ہے۔اُس کی شلوار بھی اُسی رنگ کی تھی۔ اگر کرتہ بھی اُسی رنگ کا پہنے ہوتی تو دور سے دیکھنے والے یہی سمجھتے کہ سڑک کے درمیان ایک چھوٹا سا درخت اُگ رہا ہے۔‘‘(موسم کی شرارت)

کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں جواں لڑکیاں عام طور پر بھینس، بکری، بھیڑاور گائے پالنا، لکڑی توڑنااور دودھ گھر گھر لے جانا،کپڑے دھونااور جنگلی سبزی چننے کا کام کرتی ہیں۔پہاڑی لوگ ان بھینس، بکریوں سے کافی دلچسپی رکھتے ہیں اور یہی کام اُن کے روزگار میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔منٹو نے یہاں کے لوگوں کے ذریعے معاش بالخصوص عورتوں اور جواں سال لڑکیوں کے معاش کی بہترین عکاسی کی ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:

’’جھونپڑے سے کچھ دُور جھاڑیوں کے پاس لڑکی کی گائیں گھاس چر رہی تھیں۔‘‘(موسم کی شرارت)

’’صبح سویرے اُٹھتی ہوں اور چھلّاں(بھینس کانام) کو لے کر گھاس چرانے کے لیے باہر چلی جاتی ہوں... ں شام کو پانی بھرتی ہوں۔ہر روز میرا یہی کام ہے۔‘‘(بھیگو)

’’جھاڑیوں کے پیچھے کوئی بیٹھا خشک ٹہنیاں توڑ رہا تھا۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا اور سلیپر پہن کر اُس طرف روانہ ہوا کہ دیکھوں کون ہے۔ایک لڑکی تھی جو خشک لکڑیوں کا ایک گٹھا باندھ رہی تھی۔‘‘(شیرو)

کشمیر میں موسم سرما میں شدت کی سردی ہوتی ہے اور برف باری کی وجہ سے اس سردی میں اضافہ ہوتا ہے۔اس لیے کشمیرمیں مکانات بھی ایک خاص طرز سے تعمیر ہوتے ہیں۔ مکان عام طور پر انیٹوں،پتھروں اور لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔پہاڑی علاقوں میں کچھ مکان خالص لکڑی کے بنے ہوتے ہیں اورکچھ کچی مٹی کے ہوتے ہیں جن کے چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں۔ ان کمروں میں کھڑکیاں بہت کم ہوتی ہیں اور فرش اور دیوار،گاڑھے مٹی سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔منٹو اس کا ذکر افسانے ’شیرو‘ میں ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’چیڑ اور دیودار کے ناہموار تختوں کا بنا ہوا ایک چھوٹا سا مکان تھاجسے چوبی جھونپڑا کہنا بجا ہے... چھت ٹین سے پاٹی ہوئی تھی۔ ...کمرے کا فرش خالص مٹی کا تھا جو کپڑوں کو چمٹ جاتی تھی۔‘‘ (شیرو)

منٹو نے کشمیر کی فطری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی مفلسی،لاچاری،معصومیت، شریف النفسی، رواداری، مہمان نوازی، بول چال، اندازِ گفتگواور احترام آدمیت کو افسانوی پیرایے میں خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کے افسانوں کامطالعہ کر کے یہاں کی ہریالی، پھولوں اور میوؤں سے معطر ہواؤں، درازقد کے درختوں اور پرندوں کی نغمہ ریزیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے ذریعۂ معاش، لباس،رسم ورواج اور انداز فکر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ غرض منٹو کے افسانوں میں کشمیری تہذیب بالخصوص کشمیری پہاڑی تہذیب کا کافی سرمایہ سما گیا ہے۔

تازہ ترین