• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد ریاض علیمی

فطری طور پر ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک کام یاب زندگی بسر کرے اور اُسے دُنیا جہاںکی آسائشیں میسّر ہوں۔وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ایک عظیم شخصیت کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام رقم کرجائے یامَرنے کے بعد اسے اچھے الفاظ میں یادکیا جائے،وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب وہ اپنےخوابوں، خواہشوں کو حقیقت کا رنگ دینے کا سوچتا ہے، تو اُسے ان کا حصول نا ممکن لگتا ہے، نتیجتاً دِل و دماغ پرمایوسی سی چھانے لگتی ہے اور یوں وہ’’ ایسا کروں یا ویسا…؟؟‘‘ کی بھول بھلّیوں میں بھٹک کرصرف سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ اپنے خوابوں، خواہشوں کو حقیقت کا رُوپ دے سکتا ہے۔ 

بشرطیکہ دِل میں مقصد حاصل کرنے کا جذبہ اور شوق رکھتا ہو،کیوں کہ صرف خواب دیکھنے یا دِل میں خواہش رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔سورۃ النّجم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،’’اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے، جس کی وہ سعی کرتا ہے۔‘‘حضرت علی ؓنے فرمایا،’’جو اپنے اندرونی حالات درست کرلیتا ہے، اللہ اس کے بیرونی حالات بہتر کردیتا ہے۔‘‘

اصل میں کسی فرد کا کام یاب یا ناکام ہونا، اس کے سوچ کےانداز پر بھی منحصر ہے۔ اگر وہ کوئی کام شروع کرنے سے قبل ہی اُسے ناممکن تصوّر کرلے، تو پھراس کے لیے ممکن کام بھی ہمیشہ ناممکن ہی رہتا ہے۔یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ کسی بھی فرد کی زندگی میں سب سے اہم ’’عمل کا جذبہ‘‘ ہے، اگرکسی فرد کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوجائے، تو پھر اس کے لیےکچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔

نپولین کا کہنا تھا،’’ہمیں دُنیا فتح کرنے سے قبل خود کو فتح کرنا ہوتا ہے اور خود کو فتح کرنے کے لیے پہلے اپنے اندر موجود خوف سے نمٹنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ اگر ہم اپنے اندر پایا جانے والا خوف ختم نہ کریں، تو یہ خوف ہمیں ختم کردیتا ہے۔‘‘جب کہ رابرٹ کولیر نے کام یابی کا فلسفہ کچھ یوں بیان کیا کہ’’کام یابی روزانہ سَرانجام دی جانے والی چھوٹی چھوٹی کوششوں کے مجموعے کا نام ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ’’ایک بار ناکامی نےکام یابی سے کہا،’’ بھلا کسی فرد کی قطرہ قطرہ کوششیں کیا رنگ لائیں گی؟‘‘کام یابی نے برجستہ جواب دیا،’’قطرہ قطرہ ملے تو ہی دریا بنتا ہے۔‘‘سو، جب کسی فرد کے دِل میں کام کا شوق و جذبہ ہو تو عقل کے دروازے آپ ہی آپ وا ہوجاتے ہیں، قوّتِ عمل مضبوط ہوتی ہے اور راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے نمٹنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ صرف چند دِنوں میں وہ کام کرلیتا ہے،جو کوئی دوسرا ہفتوں اور مہینوں میں بھی نہ کرپاتا۔

بعض افرادسمجھتے ہیںکہ کام یاب افراد،عام لوگوں سے مختلف ہیں، تو ایسا ہرگز نہیں ۔ہاں ،البتہ ان میں ایک نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے مثبت سوچ ، مقصد کو عملی جامہ پہنانے کی تڑپ اور کام یاب ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔ اورآگے چل کر یہی یقین ان کی کام یابی کو یقینی بنا دیتاہے۔

اگر آپ بھی زندگی میں کام یابیاں سمیٹنا چاہتے ہیں، تو سوچ مثبت رکھنے کے ساتھ اپنے اندر عمل کا جذبہ بھی پیداکرنا ہوگا۔یاد رکھیں،اس پوری دُنیا میں صرف ایک فرد ہے، جو آپ کے حالات بدل سکتا ہے،وہ چاہے، تو آپ کو تاریکی سے روشنی، پستی سے بُلندی، مایوسی سے خوش اُمیدی اور نااُمیدی سے کام یابی تک پہنچا سکتا ہے۔ اوروہ کوئی اور نہیں، آپ خود ہیں۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے قلم کار

٭رازِ کائنات اور قانونِ شفا، طاہر محمود عاصی، نارووال٭زبان کی صحت، مسواک، مہمان، شبو شاد شکارپوری، کراچی٭عورت، شاہین ولی شاد، کراچی٭انڈا، نونہالانِ وطن کی تربیت، ملک محمد اسحاق راہی، صادق آباد٭یومِ خواتین، نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ٭لباسِ حیا، زاہدہ زبیر، مقام نہیں لکھا٭ امتحان لیتی یہ قوم، سیّد مصعب غزنوی، شہر کا نام نہیں لکھا۔

تازہ ترین