• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • کہیں رُک جاؤں تو تھکن میرے اندر ڈیرے ڈالنے لگتی ہے
  • پلوشہ کی اُداس، گہری، روئی روئی سی آنکھیں کچھ اور ہی کہانی سُنارہی تھیں
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

بخت خان کا خط کیا تھا، بس چند سطریں لکھی تھیں۔ نیچے ایک پتا درج تھا، جو سرحد کے قریب کے کسی گائوں کا تھا اور اوپر پشتو زبان کا وہی شعر لکھا تھا، جس کا ترجمہ کبھی خود مجھے بخت خان نے سُنایا تھا ؎ اگر میرا محبوب خفا ہوجائے…تو اُسے منانے کے لیے میرا دل…آسمان کے ستاروں کا جرگہ بھیجے…اور کاش کوئی اُسے میری آنکھ سے دیکھے…تو پھر کبھی مجھے دیوانہ نہ کہے۔ مَیں نے کاغذ تہہ کیا، تو میری پلکیں بھیگ رہی تھیں۔ یہ انسان بھی کیا عجب مخلوق ہے۔ 

اپنے اندر کتنی پرتیں، کتنی تہیں لیے پِھرتا ہے، جیسے سنگلاخ چٹانوں کے اندر میٹھے پانی کے چشمے بہتے ہیں۔ بخت خان کو دیکھ کر بھلا کون کہہ سکتا تھا کہ اس فولاد کے اندر بھی کبھی پھول کِھلے ہوں گے۔ دھوپ نکلتے ہی مَیں نے رخت ِ سفر باندھا تو کمال صاحب گھبرا گئے ’’ارے… یہ کیا… ابھی تو تم نے ٹھیک سے دو گھڑی کمر بھی نہیں ٹِکائی۔ اور وہاں نواب صاحب روزانہ تمہاری آمد کا پوچھتے ہیں۔ شہریار بھی بہت بے چین ہے تم سے ملنے کے لیے اور تم نے سفر کی ٹھان لی…؟‘‘ مَیں نے کمال صاحب کو سمجھایا کہ اب یہی سفر میرا آرام ہے۔ کہیں رُک جائوں، تو تھکن میرے اندر ڈیرے ڈالنے لگتی ہے۔ مجھے بخت خان تک پہنچنے کی جلدی تھی۔ اُس نے میرے آنے کی اُمید ہی پر تو اپنا پتا کمال صاحب کے پاس چھوڑا تھا۔ سفر لمبا تھا، لہٰذا مَیں نے رُخصت چاہی ’’نواب صاحب اور شہریار کو میرا سلام کہیے گا۔ زندگی رہی، تو ملاقات ضرور ہوگی۔‘‘

میری گاڑی نے پلیٹ فارم چھوڑ دیا، مگر میری سوچوں نے اب بھی میرے ذہن کو باندھ رکھا تھا۔ وہ کون بزرگ تھے، جو کمال صاحب سے سلطان بابا بن کر ملنے آئے تھے اور انہوں نے یہ پیغام کیوں دیا تھا کہ مَیں سفر جاری رکھوں۔ ملاقات ہوجائے گی۔ اور پھر یہ سلطان پور کہاں ہے، جس کا اشارہ وہ کمال صاحب کو دے گئے تھے۔ دو دن کے سفر کے بعد گاڑی سرحدی صوبے کے ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر رُکی، جہاں سے مجھے بخت خان کے علاقے تک جانے کے لیے ایک بس پکڑنا تھی۔ 

مَیں اسٹیشن سے باہر نکلا، تو لاری اڈّا سامنے ہی تھا۔ مزدا ٹرک نما پرانی بسیں، اُن میں چلتے پرانے کیسٹ ریکارڈرز، باہر گرم مونگ پھلی بھنتے خوانچہ فروش، چلغوزے اور اَخروٹ، خوبانی کی مہک، سماواروں سے چھوٹے چینی کے پیالوں میں اُنڈلتی گرم چائے اور دُور فلک بوس پہاڑوں پر چمکتی برف کی چاندی، کچھ علاقے کبھی نہیں بدلتے… ہمارے شہروں کی دُنیا کتنی ہی کیوں نہ بدل جائے، یہ دُور دراز کے گائوں ہمیشہ اپنے اندر وہی ماضی کی خوشبو بسائے رکھتے ہیں۔

سنہرا ماضی، جس کی تصویریں دیکھ کر ہی ہمارے اندر سُکون، اُداسی اور یاسیت کی جانے کتنی لہریں سرایت کرجاتی ہیں۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے، جیسے آسمانی جنّت کے کسی نہ کسی گوشے کا تعلق ہمارے ماضی سے ضرور جُڑا ہوگا۔ جھٹکے کھاتی، ہچکولے لیتی بس نے شام ڈھلے مجھے کلی زرخیلاں پہنچادیا۔ اُسی جگہ کا پتا مجھے بخت خان نے کاغذ پر لکھ کردیا تھا۔ ملک اسفندیار کے ڈیرے تک پہنچنے میں مجھے زیادہ دیر نہیں لگی، جس کا نام بخت خان نے پتے کے اوپر درج کیا تھا۔

نوکر مجھے ایک بڑے سے ہال میں بٹھا کر چلا گیا اور کچھ دیر بعد ہی ایک لحیم شحیم شخص سر پر پگڑی باندھے عُجلت میں اندر داخل ہوا۔ کمرے کے وسط میں ایک بہت بڑا سا کوئلوں سے جلنے والا آتش دان پوری شدّت سے دہک رہا تھا۔ آنے والے کے چہرے کا رنگ اور اسٹوو کے انگارہ بنے کناروں کی دہک ایک جیسی تھی۔ وہ ملک اسفند یار تھا، جس نے آتے ہی مجھے بھینچ کر گلے لگالیا ’’اچھا… تو تم ہے عبداللہ خان… زبردست مڑاں، صحیح مَردوں والا کام کیا ہے تم نے۔ 

مرد کو دنیا کا کوئی جیل بند نہیں کرسکتا۔‘‘ گویا ملک کو میری آدھی حقیقت معلوم تھی۔ ضرور بخت خان نے ہی بتائی ہوگی۔ ملک میرے چہرے پر لکھے سوالات پڑھ کر بولا ’’بخت خان ہمارا چچا زاد ہے۔ اُس کو اطلاع دے دیا ہے۔ عشاء تک پہنچ جائے گا وہ اِدھر… تم فکر مت کرو۔‘‘ کچھ ہی دیر میں ملازم میری خاطر تواضع کے لیے تین چار خوانوں میں بُھنا ہوا گوشت، علاقے کی کچھ روایتی ڈشز اور گرم نان لیے حاضر ہوگئے۔ 

کھانے سے انکار کو ہمارے ہاں ہمیشہ تکلّف کے زمرے میں رکھا جاتا ہے یا شاید مہمان نوازی کو بس ایک اِسی صفت سے مشروط کردیا گیا ہے۔ مہمان کی بھوک اور مزاج کی ہماری مہمان داری میں کوئی شق نہیں رکھی گئی، لہٰذا میں بھی چُپ چاپ انہیں دِکھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ٹونگتا رہا۔ اِن دور دراز قصبوں میں وقت کی رفتار بہت دھیمی چال چلتی ہے۔ پتا نہیں کتنا وقت یوں ہی بیٹھے بیٹھے گزر گیا اور پھر اچانک باہر کچھ ہلچل سی ہوئی۔ مہمان خانے کا دروازہ کُھلتے ہی تیز سرد ہوا کا جھونکا اندر آیا۔ بخت خان دروازے کے بیچوں بیچ کھڑاناقابلِ یقین نظروں سےمیری طرف دیکھ رہا تھا اور پھر تیزی سے آگے بڑھ کر اس نے مجھے گلے لگا لیا۔ ’’ہم جانتا تھا عبداللہ خاناں! تم ضرور آئے گا۔‘‘ باقی لوگوں نے ہمیں کمرے میں تنہا چھوڑدیا۔ 

بخت خان نےمجھے بتایا کہ اُسے میری گرفتاری کی خبر کمال صاحب کے ذریعے ملی، تو پھر اُس سے وہاں رُکا نہیں گیا۔ اور وہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے اُس نے استاد اکبر کے گھر کا رُخ کیا، جس کا پتا میں کمال صاحب کے گھر سے نکلتے وقت اُسے دے آیا تھا۔ مگر اِس سارے علاقے میں پولیس کے بےتحاشا پہرے اور ناکے لگے ہونے کی وجہ سے وہ ٹھیک پتے تک نہیں پہنچ پایا، لہٰذا مجبوراً اُسے واپس پلٹنا پڑا۔ 

اگر مَیں آج یہاں نہ پہنچتا، تو بخت خان نےایک بار پھر وہاں جاکر قسمت آزمائی کا سوچ رکھا تھا۔ مَیں نے بخت خان کو مہرو کے مل جانے اور دوبارہ اپنے گھر جا بسنے کی اطلاع دی، تو خوشی سے اُس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ ’’خدایا تیرا لاکھ لاکھ شُکر ہے، کرمے بھائی سے کیا وعدہ پورا ہوگیا۔ جیو عبداللہ خاناں۔ مگر تم جیل سے کیسے باہر نکل آیا، اتنا جلدی۔‘‘ ’’مجھے عدالت نے باعزت بَری کردیا ہے بخت خان۔ میری جیل کی قید ختم ہوچُکی ہے۔‘‘ بخت خان پر جیسے شادئ مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ ہم رات گئے تک وہیں گرم اسٹوو کے گرد بیٹھے قہوہ پیتے اور باتیں کرتے رہے۔

’’اب آگے کیا ارادہ ہے بخت خان… مجھے کمال صاحب نے تمہاری کہانی سُنا دی ہے۔ کیا یہی وہ کہانی تھی، جسے پورا کرنے کےلیے تم نے جیل توڑی تھی۔‘‘ بخت خان خاموش سا ہوگیا۔ شاید کچھ کہانیاں ہمیشہ اَدھوری ہی رہنے کے لیے جنم لیتی ہیں۔ بخت خان نے مجھے بتایا کہ رقیب کے گھر والوں کو بھی اس کے فرار کی خبر ہوچُکی ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بخت خان جیل سے نکلنے کے بعد اپنے علاقے کی طرف ضرور آئے گا، لہٰذا وہ ہر لمحہ اس کی گھات میں ہیں۔ میری زبان سے اچانک نکل گیا ’’اور پلوشہ …؟‘‘ بخت خان نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ باہر چلتی تیز، سرسراتی ہوا کے شور سے مہمان خانے کی کھڑکی زوردار کھڑاکے سے کُھل گئی، جیسے یخ بستہ ہوا بھی پلوشہ کا ذکر سُننا چاہتی ہو۔

سبھی خُوب صُورت سرگوشیاں، آہٹیں ہمارے ایک محبوب کے نام ہی سے تو جڑی ہوتی ہیں، مگر پلوشہ کی زندگی اُس دن کے بعد کبھی خُوب صُورت نہیں رہ پائی۔ بخت خان کے جیل جانے کے بعد علاقے میں عجیب و غریب سی افواہیں پھیلنے لگیں کہ ضرور دونوں دوستوں میں کسی عورت ہی کی وجہ سےجھگڑا ہوا ہوگا۔ مگر وہ عورت یا لڑکی کون تھی، یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ پلوشہ اُس روز گھبرائی ہوئی اپنے گھر پہنچی اور خود کو اپنے کمرے میں بند کر کے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ 

اُس کے ہاتھوں میں ابھی تک وہ کٹا ہوا پراندہ تھا، جو اُس کی کٹی ہوئی چُٹیا سےلٹک رہا تھا۔ ماں کےلاکھ دروازہ پیٹنے پر بھی وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی اور اگلے چند دن اس نے بیماری کے بہانےکسی نہ کسی طرح خود کو چادر میں لپیٹ کر اور دُنیا سے چُھپ کر گزاردیئے۔ بخت خان کی گرفتاری کی اطلاع نے اُسے نڈھال کردیا تھا۔ 

حالاں کہ اس کےبال صرف نچلی لمبائی کی طرف سے کٹے تھے، مگر ماں کی جہاں دیدہ نظروں نے بھانپ لیا تھا۔ ایسے میں پلوشہ کی سہیلی نےبہانہ بناکر ماں کادھیان بٹانے کی کوشش کی، مگر ماں کا دل ایک بار اولاد کی طرف سے کھٹک جائے، تو پھر ذرا مشکل ہی سے سنبھلتا ہے۔ اُسے پلوشہ کی گہری اُداس اور ہر وقت کی روئی روئی سی آنکھوں کے پیچھے کچھ اور ہی کہانی نظر آرہی تھی، لہٰذا پلوشہ کے لاکھ رونے پیٹنے کے باوجود تین چار ماہ میں پہلا مناسب رشتہ آتے ہی پلوشہ کےہاتھ پیلےکرکےاُسے رُخصت کردیا گیا۔ پلوشہ کا شوہر عجب خان اچھا انسان تھا اور پہلی ہی رات پلوشہ کے سوگوار حُسن کی ایک جھلک دیکھتے ہی بیوی کے شدید عشق میں مبتلا ہوگیا تھا، مگر پلوشہ کو تو جیسے چُپ سی لگ گئی تھی اور بخت خان کی سزائے موت کی خبر سُن کر تو وہ بالکل ہی ڈھے گئی۔

اب اُس کی یادوں کا واحد سہارا وہی ایک کٹا ہوا پراندہ تھا، جو بخت خان سے اس کی آخری ملاقات کی نشانی تھی۔ عجب خان بیوی کے مزاج کا عادی ہوچُکا تھا اور یہی سوچ کر خود کو تسلی دیتا رہتا تھا کہ اُس جیسے سادہ مزاج اور عام شکل و صُورت کے مرد کو پلوشہ جیسی حسین شہزادی کا مل جانا ہی قدرت کے کسی انعام سے کم نہیں۔ وہ پلوشہ کی اُداسی کو اس کی کم سِنی اور گھر، ماں باپ سے دُوری پرمعمورکرتا رہا۔ ایک دن کوئی چیز ڈھونڈتے ہوئےاُسے وہ کٹا ہوا پراندہ بھی نظر آگیا، جو پلوشہ نےایک بڑی پیٹی میں اپنے کپڑوں کے درمیان سنبھال کر چُھپا رکھا تھا۔ 

عجب خان نے بڑے پیار سے اُس سے پوچھا کہ اگر اُسے پراندے بہت پسند ہیں، تو وہ بازار سے ڈھیروں پراندے لاکر اُس کے قدموں میں ڈھیر کرسکتا ہے، مگر پلوشہ نے مُسکرا کر اُسے ٹال دیا کہ یہ پراندہ اُس کی سہیلی کی بچپن کی ایک شرارت کی نشانی ہے، جسے وہ ایک سنہری یاد کی طرح سنبھال سنبھال رکھتی ہے۔ پلوشہ نے تو عجب کی بات ٹال دی تھی، مگر قدرت کی کچھ ہونیاں کبھی نہیں ٹلا کرتیں۔

کچھ عرصے بعد رقیب خان کےگھر والوں کو مکان میں نئی تعمیر کی ضرورت پیش آگئی، تو پرانے حجرے اور مہمان خانے کو گرا کر نئے طرز کے کمرے تعمیر کرنے کی ٹھانی گئی۔ مہمان خانہ ڈھایا گیا، تو فرش کی کُھدائی کے دوران مزدوروں کو ایک کٹی ہوئی چٹیا اوراس کےساتھ جُڑا پراندے کا آخری حصّہ نیچے دَبا ملا۔ ذرا سی دیر میں آس پاس چاروں طرف یہ خبر پھیل گئی کہ رقیب اور بخت کی دشمنی کا خفیہ راز کُھل گیا ہے۔ سبھی اپنے اپنے اندازے لگا رہے تھے کہ ضرور یہ اُسی لڑکی کی چٹیا اور پراندہ ہے، جو اُس شام رقیب کے قتل کا باعث بنی ہوگی۔

سارے بازار میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور لوگ پراندہ اور چُٹیا دیکھنے کے لیے رقیب خان کے حجرے کی طرف یوں لپکے، جیسے کسی مقدّس تبرک کی زیارت لازم ہوجائے۔ عجب خان کے کانوں تک بھی یہ خبر پہنچی تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ بھی پہاڑی کے اوپر ٹیلے پر بنے رقیب کے حجرے کی طرف لپکا اور پراندہ دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا۔ اُس پراندے کا آخری حصّہ وہ اپنی محبوب بیوی کے تکیے تلے کئی بار دیکھ چُکا تھا۔ 

مگر پلوشہ کو ختم کرنے سے پہلے وہ اُس سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ اُس روز وہاں رقیب سے ملنے گئی تھی یا بخت خان سے؟ عجب خان شدید غصّے میں تیزی سے پلٹا اورگھر پہنچنے کی جلدی میں لمبے قدم اٹھاتا پہاڑی سے نیچے اُترنے لگا، جہاں جاتی سردیوں کی خنکی کی وجہ سے جگہ جگہ پانی جم کر برف کے ٹکڑوں کی شکل اختیار کرچُکا تھا۔ 

دوسری طرف پلوشہ کی سہیلی گھبرائی ہوئی پلوشہ کے صحن میں داخل ہوئی اور اُس نے پلوشہ کو رقیب خان کے حجرے سے پراندہ ملنے کی کہانی سُنادی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ عجب خان کو بھی اوپر حجرے کی طرف جاتے دیکھا گیا ہے۔ سہیلی نے پلوشہ کی منّت کی کہ عجب خان یہ راز پاتے ہی ضرور شدید طیش کے عالم میں گھر واپس پلٹے گا، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ فی الحال پلوشہ اُس کی نظروں سے دُور رہنے کے لیے کچھ روز اپنے گھر منتقل ہوجائے، لیکن پلوشہ نے وہیں بیٹھ کر اپنی آنے والی موت کا انتظار کرنا بہتر سمجھا۔ ویسے بھی وہ بخت خان کےجانے کےبعد زندہ کب تھی۔ بس سانس چل رہی تھی اور اپنی ان سانسوں کو بند کرنے کا اختیار وہ بہت پہلے اپنے خاوند کو بخش چُکی تھی۔ مگر دُنیا کا سب سے بڑا لکھاری اپنے مسوّدوں کی بُنت اور ہماری تقدیر کے اسکرپٹ کچھ اور ہی انداز سے لکھتا ہے۔ 

بڑے بڑےنجومی اور زائچہ گر اس اسکرپٹ کی اَن ہونیوں کی پیشین گوئی میں غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ یہاں پلوشہ گھر کے صحن میں اپنی چادر زمین پر بچھائے بیٹھی اپنی قضا کا انتظار کر رہی تھی اور وہاں شدید غصّےمیں تیزی سے پہاڑی ڈھلوان اُترتے عجب خان کا پائوں جمی برف پر کچھ یوں پھسلا کر وہ لمحہ بھر ہی میں توازن کھوکر سر کے بل اونچائی سے گہری کھائی میں جاگرا اور اُسے دوسرا سانس لینے کی مہلت بھی نہ ملی۔ قدرت نے ایک بار پھر پلوشہ کا پردہ رکھا اور کوئی نہ جان پایا کہ اس پراندے کا بقیہ حصّہ عجب خان کی بیوی کے پلّوسے بندھا ہوا ہے۔ تب سے پلوشہ اپنے میکے میں ایک بیوہ کی زندگی جی رہی تھی۔

بخت خان کو یہ ساری کہانی پلوشہ کی اُسی سہیلی کی زبانی پتاچلی تھی، جس کے پاس بخت خان نے علاقے میں پہنچتے ہی اپنے خاندان کی سب سے پرانی، وفادار اور رازدار ملازمہ کو پلوشہ کی ٹوہ لینے بھیجا تھا۔ پلوشہ کو بھی بخت خان کے فرار کی خبر مل چُکی تھی، مگر اب اُن دونوں کے بیچ زمانے کے کئی اَن دیکھے خاردار پہرے تھے۔ بخت خان پلوشہ کو ایک بار پھر اپنی عزّت بنانا اور نکاح کے بعد اُسے لےکر وہاں سےکہیں بہت دُور جاکر بس جانا چاہتا تھا، مگر یہ دنیا والے بھلا اتنی آسانی سے کسی کو کب بسنے دیتے ہیں۔ 

اور پھر بخت خان تو سزائے موت سے بھاگا ہوا ایک قیدی تھا، جس کے اپنے کئی ذاتی دشمن اُسی علاقے میں اُس کے خون کے پیاسے پِھر رہے تھے۔ بخت خان نے مجھے بتایا کہ اُس نے پلوشہ کی سہیلی کے ذریعے اُسے پیغام تو بھجوادیا ہے کہ وہ اُس سے اُسی پنگھٹ والے چشمے کے پیچھے ملنا چاہتا ہے، جہاں کبھی وہ پہلے ملا کرتے تھے۔ مگر جانے پلوشہ اب گھر سے کبھی نکل پائے گی یا نہیں۔ یہ فکر ہر دم بخت خان کو کھائے جا رہی تھی۔

مگر، پھر اگلی صبح ہی بخت خان کےلیے زمانے بعد خوشی کو نوید لے کر آئی۔ وہ مہمان خانے میں داخل ہوا، تو اُس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ ’’عبداللہ خان! پلوشہ ہم سے ملنے آئے گا۔ اور اگر وہ نکاح پر راضی ہوگیا، تو ہم اس کو لے کر تمہارے ساتھ بڑے شہرچلاجائےگا۔ سُناہے بڑے شہروں میں کوئی کسی کو نہیں پہچانتا۔ تم ہم کو اپنے ساتھ لے جائے گاناں؟‘‘ میں نے مُسکرا کر بخت خان کی طرف دیکھا۔ ’’ہاں، مگر صرف ایک شرط پر کہ تم میرے گھر میں رہوگے اور میرے پاپا کو اپنے علاقے کی کہانیاں سُنایا کرو گے۔‘‘ بخت خان نے مجھے گلے لگا لیا۔ یہ خوشی بھی کیا عجب شے ہے، پَل بھر میں کیسے مُردہ کو زندہ کر کے اُس کے چہرے پر گلابی رنگ بکھیر دیتی ہے۔ 

شاید دنیا کا سب سے طاقت ور وٹامن پَل بھر کی خوشی کا ایک لمحہ ہوتا ہے۔ شام کو اُن دونوں کی ملاقات طے تھی۔ بخت خان نےجاتے ہوئے مجھے تاکید کی کہ مَیں تیار رہوں۔ کیوں کہ اگر پلوشہ اُس سے نکاح کے لیے تیار ہوگئی، تو وہ آج رات ہی دو گواہ پکڑ کر نکاح پڑھوالے گا اور ہم تینوں صبح سے پہلے اِس علاقے سے ہمیشہ کے لیے نکل جائیں گے۔ بخت خان جانے لگا، تو مَیں نے پیچھے سے اُسے آواز دی۔ ’’اپنا خیال رکھنا بخت خان…‘‘ بخت خان نے میری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور اپنی کلاشن کوف کاندھے سے لٹکا کر باہر نکل گیا۔

بخت اور پلوشہ کی ملاقات ایک بار پھر اُسی سہیلی کے توسّط سے ہو رہی تھی۔ باہر شام ڈھل رہی تھی اور مَیں مہمان خانے کی کھڑکی کے قریب بیٹھا آسمان پراُمڈتے بادلوں کو کسی کے استقبال کے لیے جمع ہوتے دیکھ رہا تھا۔ جب بھی دو پیار کرنے والے ملنے لگتے ہیں، جانے اِن بادلوں کو کیسے خبر ہو جاتی ہے؟ مَیں چشم ِ تصوّر سے بخت اور پلوشہ کی ملاقات کا منظر دیکھ رہا تھا، اتنے سالوں بعد وہ جب بخت سے ملنے اپنے گھر سے نکلی ہوگی، تو اُس کا دل کتنی زور زور سے دھڑک رہا ہوگا۔ اُس نے وہ پراندہ بھی اپنے پلّو سے باندھ رکھا ہوگا، جو اتنے سالوں سے بخت خان کی یاد بن کر اُس کے ساتھ رہا تھا اور بخت، وہ تو پلوشہ کے جانے کےبعد بولنا ہی بھول گیا تھا۔ 

جانے آج لفظ کیسے ادا ہو پائیں گے، اُس کی زبان سے اور پھر لفظوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ خاموشی کی لغت کافی ہوتی ہے، ایسی ملاقاتوں کے لیے۔ مَیں اپنے خیالوں میں گُم تھا کہ باہر کچھ شور اور ہلچل سی ہوئی اور اگلے ہی لمحے اسفندیار شدید گھبرایا اندر داخل ہوا۔ ’’جلدی چلو عبداللہ خان! کسی نے دشمن کو بخت خان کا مخبری کردیا ہے۔ وہ لوگ بخت خان کے پیچھے نکل پڑا ہے۔ بخت اُدھر اکیلا ہے۔‘‘ مَیں گھبرا کر باہر لپکا، جہاں تین چار بڑی گاڑیاں بہت سے مسلّح افراد کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ ہمارا رُخ اسی پہاڑی جھرنے کی طرف تھا، جہاں بخت اور پلوشہ کی ملاقات طے تھی، مگر ہر بار محبت کے دشمنوں کو جانے ایسی جگہوں کی مخبری کیسے ہوجاتی ہے۔ 

شاید انہی بادلوں میں سے کوئی ایک یہ مخبری بھی کرتا ہوگا۔ ہم ٹیلے سے کچھ فاصلے پر تھے، جب کلاشن کوف کی اندھا دھند فائرنگ کی آواز سے ساری وادی لرز اٹھی۔ میرے دل سے بےاختیار آواز آئی۔ ’’یااللہ خیر…‘‘ مگر کچھ دعائیں عرش پر ذرا دیر سےپہنچتی ہیں۔ اوپر سے کوئی چیخا ’’ملک صاحب! غضب ہوگیا، دشمن نے اپنا وار کردیا ہے۔ ہائے بخت خاناں…‘‘ مَیں دیوانوں کی طرح بھاگتا، ہانپتا اوپر پہنچا، تو بخت خان اور پلوشہ کے بےجان لاشے ایک دوسرے کےقریب پڑے تھے۔ تبھی بادل زور سے گرجے اور برستی بوندوں میں اُن دونوں کا خون مل کر بہنے لگا۔ 

جیتے جی تو وہ مل نہ پائے، مرنے کے بعد یہ بارش اُن کی ڈولی اٹھانے آئی تھی شاید… اچانک تیز ہوا چلی اور مجھے لگا قضا کی دیوی وہیں کہیں سیاہ لباس پہنے بیٹھی دُور سے مجھے گھور رہی ہے۔ پھر دیوی نے دھیرے سے سرگوشی کی۔ ’’آئو عبداللہ… تمہارے دوست کی سانسیں یہاں قبض کرنی تھیں مجھے۔ تم خوامخواہ جیل سے بھگا کر لائے اُسے… اُس کی موت وہاں نہیں، یہاں طے تھی۔‘‘ اچانک کسی نے میرے شانے پر ہاتھ رکھا۔ مَیں نے پلٹ کر دیکھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین