• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کفار نے درجنوں صحابہؓ دھوکے سے شہید کردیئے قسط نمبر(10)

غزوہ حمراء الاسد

رسول اللہﷺ غزوۂ اُحد کے بعد شام کو مدینہ منوّرہ پہنچے۔ آپﷺ سمیت تمام صحابہ کرامؓ زخموں سے چُور تھے۔ جب شام کے سائے گہرے ہوئے، تو صحابۂ کرامؓ شدید تھکاوٹ اور مجروح جسموں کے باوجود رسول اللہﷺ کے حجرے اور مدینے کے داخلی راستوں پر پہرہ دینے کے لیے آ پہنچے۔ آنحضرتؐ کو اندازہ تھا کہ قریشِ مکّہ خالی ہاتھ جانے کی بجائے پلٹ کر مدینے پر اچانک حملہ کریں گے۔ چناں چہ صبح نمازِ فجر کے بعد آپؐ نے مشرکین کے تعاقب کا اعلان فرمایا، لیکن اس مہم میں صرف اُن صحابہؓ کو شرکت کی اجازت دی، جو معرکۂ اُحد میں شریک تھے۔ 

نبی کریمﷺ کے اس حیران کُن اعلان سے منافقین کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی، وہ تو اس گمان میں تھے کہ اب مسلمانوں کی کمر ٹوٹ چُکی ہے اور وہ اُن کے محتاج ہو چُکے ہیں۔ منافقِ اعظم اور اُحد کا بھگوڑا عبداللہ بن اُبی منافقین کا ایک لشکر لے کر بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوا اور ساتھ چلنے کی اجازت چاہی۔ آپؐ نے نہ صرف اُسے منع فرمایا، بلکہ جو مسلمان اُحد کی لڑائی میں شامل نہیں تھے اور اب جانے کے لیے آئے تھے، اُنھیں بھی واپس بھیج دیا۔ اُدھر ابو سفیان نے مکّہ جاتے ہوئے مدینے سے36میل کی مسافت پر پڑائو ڈالا۔ یہاں پہنچ کر قریش کے سرکردہ لوگوں کو خیال آیا کہ ہم تو خالی ہاتھ ہیں، اگر اپنی فتح اور مسلمانوں کی شکست کی بات کریں گے، تو ہم سے مسلمان قیدیوں اور مالِ غنیمت کے بارے میں سوال ہوگا۔ لہٰذا اکثریت کی رائے ہوئی کہ پلٹ کر مسلمانوں کا خاتمہ کر دیا جائے، کچھ کو گرفتار کر کے ساتھ مکّہ لے جائیں۔ کفّار حملے کی تیاری کر رہے تھے کہ قبیلہ بنو خزاعہ کا سردار معبد خزاعی، ابو سفیان سے ملنے آیا۔ 

وہ مسلمان تو نہ تھا، لیکن اس کا قبیلہ، بنو ہاشم کا حلیف تھا، لہٰذا وہ آنحضرتؐ سے ملاقات اور شہداء کی تعزیت کر کے آیا تھا۔ ابو سفیان نے اُسے بتایا کہ وہ مدینہ واپس جا کر مسلمانوں کا خاتمہ کریں گے، تو وہ بولا’’ایسی غلطی نہ کرنا، ورنہ مسلمان مکّے سے کوسوں میل دُور تم سب کو قتل کر کے دفنا دیں گے۔ مَیں مقامِ حمراء الاسد پر(حضرت)محمّد(ﷺ) کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فوج دیکھ کر آ رہا ہوں، جو سخت غصّے کی حالت میں آندھی، طوفان کی طرح تمہارے تعاقب میں آ رہی ہے۔‘‘اس پر کفّار عجلت میں مکّے کی جانب روانہ ہو گئے۔

سَرِیّہ ابو سلمہؓ… یکم محرّم، 4ہجری

بدر کی فتح سے مسلمانوں کو جو شان و شوکت اور رُعب و دبدبہ نصیب ہوا تھا، اُحد کے واقعے نے اس ہیبت کو کفّار کے دِلوں سے کسی حد تک کم کر دیا۔ اسی وجہ سے یہود، کفّار، منافق یہاں تک کہ عرب کے بدو بھی کُھلی بغاوت اور سازشیں کر کے اہلِ ایمان کی مشکلات میں اضافہ کرنے لگے۔ 

غزوۂ احد کو دو ماہ اور کچھ دن ہی گزرے تھے کہ رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ مقامِ فید کے کوہستانی علاقے، قطن میں رہائش پذیر قبیلہ بنو اسد کے سردار خویلد اور اُس کے دونوں بیٹے طلحہ اور مسلمہ اپنے قبیلے کے لوگوں کو مسلمانوں سے جنگ کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابو سلمہؓ کو 150 مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر اُن کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا۔ یہ لشکر نہایت تیزرفتاری کے ساتھ سفر طے کرتا قطن میں داخل ہوا۔ اُن لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یوں اچانک مسلمان اُن سے جنگ کرنے اُن کے گھروں تک آ جائیں گے۔ چناں چہ قبیلے کے سب لوگ اپنے مال مویشی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ مجاہدین نے اُن کے اونٹ اور دیگر مویشی ساتھ لیے اور واپس مدینہ آ گئے۔

سَرِیّہ عبداللہؓ بن انیس … 5محرّم، 4ہجری

رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ کوہستان عرنہ کا رئیس، سفیان بن خالد ہذلی مسلمانوں سے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ آنحضرتﷺ نے اُس کی سرکوبی کے لیے حضرت عبداللہؓ بن انیس کو روانہ کیا۔اُنہوں نے چلتے وقت عرض کیا ’’یارسول اللہﷺ! مجھے اُس کی کوئی نشانی بتا دیجیے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ جب تم اُس کا چہرہ دیکھو گے، تو تمھیں شیطان یاد آ جائے گا۔‘‘ حضرت عبداللہؓ بن انیس کہتے ہیں کہ ’’مَیں اُس کے علاقے میں پہنچا اور جب اُس سے ملا تو مجھ پر ایسا ڈر اور خوف طاری ہوا کہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ پھر مَیں نے اُسے بتایا کہ مَیں بنی خزاعہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ 

مجھے پتا چلا ہے کہ تم مسلمانوں سے جنگ کی تیاری کر رہے ہو، تو مَیں بھی تمہارے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہوں۔ اُس نے مجھے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ مَیں اس کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کئی دن تک اُس کی خدمت اور اُس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔ پھر ایک دن جب وہ اپنے خیمے میں اکیلا تھا، مَیں نے اچانک ایک بھرپور وار کر کے اُس کا سَر گردن سے جُدا کر دیا اور اُس کے سَر کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر جلدی سے وہاں سے نکل آیا۔ پھر کئی دن تک پہاڑوں کے درمیان راتوں کو سفر کرتا اور دن میں کسی گھاٹی میں چُھپ رہتا، یہاں تک کہ18دن بعدرسول اللہﷺ کی خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہوا اور اُس کا سَر آپؐ کے قدمِ مبارک کے پاس ڈالتے ہوئے عرض کیا’’یارسول اللہ ﷺ! یہ رہا آپؐ کے دشمن کا سَر۔‘‘ آنحضرتؐ نے مجھے دعائیں دیتے ہوئے ایک عصا عطا فرمایا’’ اسے پکڑ کر تم سیدھے جنّت میں چلے جائو گے۔‘‘ آنحضرتؐ کا عطا کردہ یہ عصا اُنہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا، اُسے ہر وقت اپنے پاس رکھتے۔ جب اُن کی وفات کا وقت آیا، تو وصیّت کے مطابق وہ عصا اُن کے کفن میں رکھ دیا گیا۔

سَرِیّہ منذرؓ بن عمرو… صفر، 4ہجری

قبیلہ کلاب کا رئیس عامر بن جعفر کلابی، نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا’’ چند مسلمانوں کو میرے ساتھ کر دیں تاکہ وہ میری قوم کو اسلام کی دعوت دیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’مجھے اہلِ نجد کا خوف ہے۔‘‘ اُس نے کہا’’ آپؐ کے اصحابؓ کی حفاظت کے لیے مَیں ہوں ناں۔‘‘ اُس کے بے حد اصرار پر آنحضرتؐ نے اصحابِ صفّہ میں سے انصار کے70نوجوان خوش الحان قاری اُس کے ساتھ کر دیئے اور حضرت منذرؓ بن عمرو الساعدی کو اُن کا امیر مقرّر فرمایا۔ اُن لوگوں نے بنو سلیم کے گھاٹ بئر معونہ پر پڑائو ڈالا اور حضرت حرامؓ بن ملحان کو آنحضرتؐ کے فرمان کے ساتھ اس علاقے کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس بھیجا۔ 

اُس بدبخت نے مسلمانوں کے قاصد کو شہید کر دیا۔ پھر ایک بڑا لشکر لے کر مسلمانوں کی جانب بڑھا۔ صحابۂ کرامؓ، حضرت حرامؓ بن ملحان کا انتظار کر رہے تھے، لیکن جب وہ نہیں آئے، تو اُنہیں تلاش کرنے نکلے۔ راستے میں عامر بن طفیل کے لشکر سے مڈبھیڑ ہو گئی، جنہوں نے تمام صحابہ کرامؓ کو شہید کر دیا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ’’ مَیں نے کسی پر آپؐ کو اس قدر رنجیدہ ہوتے نہیں دیکھا، جتنا اصحاب ِ بئر معونہ پر۔‘‘ اس سانحے میں صرف حضرت کعبؓ بن زید زندہ بچے ،جو شہداء کے درمیان زخمی حالت میں پڑے تھے۔ حضرت عمروؓ بن اُمیہ جو کچھ پیچھے رہ گئے تھے، جب وہاں پہنچے تو اُنھیں گرفتار کرلیا گیا، مگر اُنھیں عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ’’ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منّت مانی تھی، اس لیے مَیں تمھیں آزاد کرتا ہوں۔‘‘ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے آپؐ کے صحابہؓ کو بئرِ معونہ میں شہید کیا تھا، آپؐ نے اُن پر تیس روز تک بددُعا کی۔ عامر بن طفیل ایک ماہ بعد طاعون سے ہلاک ہو گیا۔

سَرِیّہ مرثدؓ بن ابی مرثد… صفر، 4ہجری

قریش نے دو مشہور قبائل، عضل اور قارۃ کے چند افراد کو آنحضرتؐ کی خدمت میں بھیجا۔ اُنہوں نے بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہو کر عرض کیا’’ ہم نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپؐ ہمارے ساتھ کچھ معلّم بھیج دیں تاکہ وہ ہمیں اسلامی تعلیمات دیں۔‘‘ آپؐ نے دس صحابۂ کرامؓ کو حضرت مرثدؓ بن ابی مرثد یا حضرت عاصمؓ بن ثابت کی امارت میں اُن کے ساتھ کر دیا۔ جب یہ لوگ رجیع نامی ایک چشمے پر پہنچے، تو اُن لوگوں نے قبیلہ بنو ہزیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو اُن کے قتل کا اشارہ کر دیا۔ 

چناں چہ ایک سو کے قریب تیراندازوں نے اُنہیں گھیر لیا۔ صحابہ کرامؓ نے آگے بڑھ کر ایک اونچے ٹیلے پر پناہ لی۔ تیراندازوں نے کہا’’ اگر تم نیچے اُتر جائو، تو ہم تمہیں پناہ دیتے ہیں۔‘‘ حضرت عاصمؓ نے کہا کہ’’ ہم کافر کی پناہ میں نہیں آتے۔‘‘ پھر اللہ سے مخاطب ہوئے ’’اے اللہ! اپنے رسولﷺ کو یہ خبر پہنچا دے۔‘‘ اس کے بعد اُنہوں نے ٹیلے کے اوپر سے تیراندازوں کا مقابلہ کیا۔ اس دَوران سات صحابہؓ شہید ہو گئے۔ باقی تین صحابہؓ اُن کی زبان پر بھروسا کر کے نیچے اُتر آئے، لیکن اُن لوگوں نے تینوں کی مشکیں کس دیں۔ اُن میں سے ایک صحابیؓ نے اس بدعہدی پر احتجاج کیا، تو اُسے شہید کر دیا گیا، باقی دو صحابیؓ، حضرت خبیبؓ بن عدی اور حضرت زیدؓ بن دثنہ کو مکّہ لے جا کر فروخت کر دیا۔ 

حضرت زیدؓ کو صفوان بن اُمیہ نے خرید لیا تاکہ بدر میں اپنے باپ کے قتل کے بدلے میں قتل کر دے۔ ابو سفیان نے قتل کے وقت پوچھا’’ زید! تمہیں خدا کی قسم سچ سچ بتانا! اگر تمہارے بجائے(حضرت) محمّد(ﷺ) ہوں اور ہم اُن کی گردن ماریں(نعوذ باللہ) اور تم اپنے گھر محفوظ رہو، تو تم اس کو پسند کرتے ہو؟‘‘حضرت زیدؓ نے جواباً فرمایا’’ واللہ! مجھے تو یہ بھی منظور نہیں کہ حضرت محمّدﷺ کو کانٹا چُبھے اور مَیں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں۔‘‘ حضرت خبیبؓ کو عقبہ بن حارث نے خرید لیا۔ اُس کے باپ حارث بن عامر کو حضرت خبیبؓ نے جنگِ بدر میں قتل کیا تھا۔ عقبہ اُنہیں اپنے گھر لے گیا تاکہ حرام مہینے نکل جانے کے بعد اُنہیں قتل کرے۔ ایک دن حارث کی نواسی حضرت خبیبؓ کے پاس بیٹھی تھی اور حضرت خبیبؓ کے ہاتھ میں چُھری تھی۔ اتفاق سے اُسی وقت بچّی کی ماں اُدھر نکل آئی۔

اُس نے جو یہ منظر دیکھا تو کانپ اٹھی۔ حضرت خبیبؓ نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا’’تُو کیا سمجھی کہ مَیں اِس معصوم بچّی کو قتل کر دوں گا؟ ہمارا یہ کام نہیں ۔‘‘ حرام مہینے گزر جانے کے بعد خاندانِ حارث اُنہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے۔ جب وہ اُنہیں سولی پر لٹکانے لگے، تو حضرت خبیبؓ نے فرمایا’’ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو۔‘‘ اجازت ملنے پر آپؓ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ سلام پھیر کر فرمایا’’بخدا اگر تم لوگ یہ نہ سوچتے کہ مَیں خوف یا گھبراہٹ کی وجہ سے کر رہا ہوں، تو نماز کو مزید طول دیتا۔‘‘ اس کے بعد عقبہ بن حارث نے آپؓ کو سولی پر چڑھا دیا۔ 

قریش نے حضرت عاصمؓ بن ثابت کا سر سلافہ بنتِ سعد کے ہاتھوں فروخت کرنے کا ارادہ کیا، کیوں کہ حضرت عاصمؓ نے سلافہ کے دو بیٹوں مسافع اور جلاس کو اُحد میں قتل کیا تھا۔ سلافہ نے نذر مانی تھی کہ عاصمؓ کے کاسۂ سر میں شراب پیے گی، لیکن جب وہ حضرت عاصمؓ کا سر کاٹنے لاش کے پاس آئے، تو اُن کی لاش پر بِھڑوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ موجود تھے۔ دراصل، حضرت عاصمؓ نے اللہ سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ کسی مشرک کو چُھوئیں گے اور نہ کوئی مشرک اُنہیں چُھوئے گا۔ حضرت عُمر فاروقؓ فرمایا کرتے تھے کہ’’ اللہ اپنے مومن بندے کی حفاظت اُس کی وفات کے بعد بھی کرتا ہے، جیسے اُس کی زندگی میں کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری)۔

غزوہ بنی نضیر … ربیع الاوّل، 4ہجری

یہودیوں کا قبیلہ بنی نضیر مدینے کے مضافات میں ایک سرسبز علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ رسول اللہﷺ نے اُن سے ملاقات کا ارادہ فرمایا تاکہ اُن سے بنو کلاب کے اُن دو مقتولین کی دیت کی رقم کی بات کی جائے، جنہیں حضرت عمروؓ بن اُمیہ نے غلطی سے قتل کر دیا تھا۔ معاہدے کی رُو سے دیت کا ایک حصّہ بنی نضیر کو دینا تھا۔ آپؐ صحابہؓ کی ایک جماعت کے ساتھ بنی نضیر تشریف لے گئے۔ اُنہوں نے کہا’’اے ابوالقاسمؐ! آپؐ یہاں تشریف رکھیں، جیسا آپؐ کہتے ہیں ،ہم ویسا ہی کریں گے۔‘‘ آنحضرتؐ، صحابہؓ کے ساتھ وہاں تشریف فرما ہوگئے۔دوسری طرف یہودیوں نے جمع ہوکر آپؐ کو نعوذ باللہ شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ عمرو بن حجاش بن کعب نے ذمّے داری لی کہ وہ چھت کے اوپر سے ایک بھاری پتھر یا چکی کا بھاری پاٹ آپؐ کے سَر پر دے مارے گا۔

تاہم، حضرت جبرائیل علیہ السّلام، آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہودیوں کے مذموم مقاصد سے مطلع فرمایا۔ آپؐ فوری طور پر وہاں سے اُٹھے اور مدینے کی جانب روانہ ہو گئے۔ مدینہ تشریف لاتے ہی آپؐ نے حضرت محمّدؓ بن مسلمہ کو اس حکم نامے کے ساتھ بنی نضیر روانہ کیا کہ’’ پورا قبیلہ دس دن کے اندر اندر مدینے کی حدود سے باہر نکل جائے، ورنہ دس دن بعد اُن میں سے جو بھی مدینے کی حدود میں نظر آیا، اُسے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘ یہودیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو چُکا تھا، لیکن اب وہاں سے نکلنے کے سِوا چارہ نہ تھا، سو، اُنہوں نے جلاوطنی کی تیاری شروع کر دی۔ رئیس المنافقین، عبداللہ بن اُبی کو جب اطلاع ملی، تو اُس نے یہودیوں کو پیغام بھیجا’’ خبردار! کوئی اپنا گھر نہیں چھوڑے گا، اگر مسلمان آتے ہیں، تو تم سب قلعہ بند ہو جانا۔ 

میرے دو ہزار جانباز تمہاری حفاظت کریں گے اور بنو قریظہ و بنو غطفان بھی تمہاری مدد کریں گے۔‘‘ یہودیوں کے سردار حئی بن اخطب کو یقین تھا کہ عبداللہ بن اُبی کے لوگ اُن کی حفاظت کے لیے آئیں گے، چناں چہ اُس نے تکبّر کے عالَم میں آنحضرتؐ کو پیغام بھیجا کہ’’ جو کرنا ہے کر لیں، ہم اپنا علاقہ چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔‘‘ رسول اللہؐ نے پیغام ملتے ہی صحابہؓ کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا۔ عصر کی نماز بنی نضیر کے میدان میں ادا فرمائی۔ یہودیوں نے جب مسلمانوں کو دیکھا، تو تیر اور پتھر لے کر قلعوں کی فصیل پر چڑھ گئے۔ صحابہؓ نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ 

یہودی بڑی بے تابی سے عبداللہ بن اُبی کے دو ہزار جنگ جُوئوں کا انتظار کر رہے تھے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا، اُن کی مایوسی بڑھتی جا رہے تھی، لیکن کوئی بھی اُن کی مدد کو نہ پہنچا۔ محاصرے کو پندرہ دن بھی نہ گزرے تھے کہ بنو نضیر کے اعصاب جواب دے گئے اور اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگی قوانین کے تحت سب کو قتل کر دیا جاتا، لیکن نبیٔ رحمتﷺ نے فرمایا’’ اسلحے کے علاوہ اپنے تمام سازو سامان اور اہل و عیال سمیت فوری طور پر مدینے کی حدود سے باہر نکل جائیں۔‘‘یہودیوں نے اپنے گھروں کی کھڑکیوں، دروازوں سمیت تمام مال و اسباب600اونٹوں پر لادا اور کُوچ کر گئے۔ بنو نضیر معاشی اعتبار سے طاقت وَر تھے، چناں چہ اُن کے باغات، کھیتی باڑی اور مکانات قبضے میں لے لیے گئے۔ اسلحے میں تین سو چالیس تلواریں، پچاس زِرہیں اور پچاس خَود بھی شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی59ویں سورہ، سورۃ الحشر میں اس واقعے کی پوری تفصیل بیان فرمائی ہے۔

غزوۂ نجد … ربیع الآخر یا جمادی الاولیٰ، 4ہجری

نبی کریمﷺ، بنو نضیر کے یہودیوں کو سبق سِکھا کر فارغ ہوئے تھے کہ اطلاع ملی کہ بنی غطفان کے دو قبیلے بنو محارب اور بنو ثعلبہ نے مدینے پر حملے کے لیے لشکر جمع کرنا شروع کر دیا ہے، جس میں زیادہ تعداد بَدوئوں کی تھی جو لُوٹ مار کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اُن کی فوری سرکوبی کا فیصلہ کیا۔ آپؐ نے چار سو صحابہؓ کے ساتھ وادیٔ نجد کا رُخ فرمایا۔ کفّار نجد کے ایک نخلستانی میدان میں جمع تھے۔ اُنہوں نے جیسے ہی مسلمان فوج آتے دیکھی، خوف کے مارے پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ نبی کریمﷺ نے اپنی پیش قدمی نہ روکی اور صحرائے نجد کے آخری کونے تک جا پہنچے تاکہ علاقے میں لُوٹ مار کرنے والے بَدوئوں پر مسلمانوں کا رُعب و دبدبہ قائم ہوسکے۔ یہاں چند دن قیام کے بعد آپؐ واپس مدینہ تشریف لائے۔

غزوۂ بدر ثانی … شعبان، 4ہجری

ابو سفیان نے اُحد کی گھاٹی کے قریب کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ’’ آئندہ سال بدر کے مقام پر دوبارہ مقابلہ ہوگا۔‘‘ جواباً آنحضرتؐ نے حضرت عُمر فاروقؓ سے فرمایا کہ ’’کہہ دو انشاء اللہ۔‘‘ آنحضرتؐ کے حکم پر مسلمانوں نے اس جنگ کی تیاری شروع کر دی تھی۔ معرکۂ اُحد کے بعد اس جنگ کی بڑی اہمیت تھی اور مسلمانوں کو اُحد کا بدلہ چُکانا تھا۔ آنحضرتؐ ڈیڑھ ہزار صحابۂ کرامؓ کے ساتھ بدر کی جانب روانہ ہوئے۔ لشکر میں صرف دس گھوڑے تھے۔ حسبِ وعدہ رسول اللہﷺ وقتِ مقرّرہ پر بدر کے میدان میں خیمہ زن ہو گئے اور مشرکینِ مکّہ کا انتظار فرمانے لگے۔

ابو سفیان کو اطلاع ملی، تو وہ پریشان ہوگیا۔وہ راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا تھا، لیکن قریش کی عزّت و وقار کے خاطر اُسے ہر حال میں بدر پہنچنا بھی تھا۔ لہٰذا ،بادل نخواستہ دو ہزار جنگ جُوئوں اور پچاس سواروں کے ساتھ مکّے سے روانہ ہوا۔ اُس کی اگلی منزل وادی مرالظّہران تھی۔ پھر جس دن وہاں سے بدر کے لیے کُوچ کرنا تھا، اُس نے اپنی فوج سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’ یہ خشک سالی کا سال ہے، ہریالی اور سبزہ نہ ہونے سے ہمارے جانور کم زور بھی ہیں اور لاغر و بیمار بھی۔

خود ہمیں بھی دودھ میّسر ہے اور نہ پھل۔ ہمارے پاس صرف ستّو ہی ہیں، جب کہ بارش کے بھی کوئی آثار نہیں۔ یہ وقت جنگ کے لیے موزوں نہیں ، لہٰذا میرا فیصلہ ہے کہ ہمیں واپس مکّہ چلے جانا چاہیے اور کسی بہتر وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔‘‘ ابو سفیان کے اس اعلان نے کفّار میں خوشی کی لہر دوڑا دی اور وہ فوراً واپس مکہ لَوٹ گئے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین