• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرائیویٹ جامعات اور انسٹی ٹیوشنز ایکٹ میں ترمیم کئے بغیر بورڈ آف گورنرز میں غیرقانونی نامزدگیوں کا انکشاف

کراچی(اسٹاف رپورٹر ) سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے پرائیویٹ جامعات اورانسٹی ٹیوشنزکے ’’ایکٹ‘‘ میں ترمیم کیئے بغیر ان کے بورڈآف گورنرز میں غیر قانونی نامزگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 31 پرائیویٹ جامعات اورانسٹی ٹیوشنز میں یہ نامزدگیاں کی ہیں جس میں بعض افراد کا سفارشی اور سیاسی بنیادوں پر بھی تقرر کیا گیا ہے اور اب یہ افراد نجی جامعات اورانسٹی ٹیوشنزکے بورڈآف گورنرزمیں سندھ ایچ ای سی کی نمائندگی کریں گے۔ پرائیویٹ جامعات کے ایکٹ کی روشنی میں سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نمائندگی سرے سے موجود ہی نہیں اور ان کے ایکٹ میں ترمیم کیئے بغیر یہ اقدام غیر قانونی تصور ہوگا۔ اسناد تقویض کرنے والے ایک پرائیویٹ ادارے کے سربراہ نے جنگ کو بتایا کہ ان کے قانون میں گنجائش ہی موجود نہیں ہے کہ سندھ ایچ ای سی کا کوئی نمائندہ ان کے بورڈ آف گورنر یا کسی اور اجلاس میں شریک ہوسکے انھوں نے بتایا کہ سندھ ایچ ای سی کی جانب سے جو نوٹفیکشن بھجوایا گیا ہےاس میں جولائی 2019کو منعقدہ اجلاس کاحوالہ دیاگیا ہے کہ سندھ ایچ ای سی کے 8ویں اجلاس میں اس بات کافیصلہ کیاگیاہے کہ ’’اسناد تفویض کرنے والی نجی جامعات اور انسٹیٹیوٹس‘‘کے بورڈآف گورنرزکے لیے سندھ ایچ ای سی کی جانب سے مختلف شخصیات کونامزد کردیاگیاہے جو ان جامعات کے بورڈزکے اجلاسوں میں شریک ہونگے یہ نوٹفکیشن ڈپٹی سکریٹری سندھ ایچ ای سی خالد حسین مہر کی جانب سے جاری کیا گیا ہے جو بنیادی طور پر کالج اسٹنٹ پروفیسر ہیں اور سپریم کورٹ کی جانب سے ڈیپوٹیشن پر پابندی ہونے کے باوجود کالج میں پڑھانے کے بجائے سندھ ایچ ای سی میں کام کررہے ہیں ۔ سکریڑی سندھ ایچ ای سی محمد حسین سید نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام ان کے دو رمیں نہیں ہوا ہے بلکہ سکریٹری ایچ ای سی کا چارج لینے سے قبل یہ نوٹیفیکیشن جاری ہوچکا تھا انھوں نے کہا کہ قاعدے کے مطابق جامعہ سرکاری ہو یا نجی اگر ایکٹ کے مطابق کام ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ درست نہیں ہوگا۔

تازہ ترین