• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ایک فیصد کھرب پتیوں کی دولت 6 ارب 90 کروڑ افراد سے دگنی

ایک فیصد کھرب پتیوں کی دولت 6 ارب 90 کروڑ افراد سے دگنی 


کراچی (جنگ نیوز) دنیا میں ایک فیصد کھرب پتیوں کی دولت 6؍ ارب 90؍ کروڑ افراد کی مجموعی سے دولت سے دگنی ہے۔

عالمی تنظیم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے 2153؍ ارب پتی افراد کے پاس موجود دولت دنیا کی 60 ؍ فیصد آبادی کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے یعنی صرف 2153 امیر ترین افرادکے پاس دنیا کے چار ارب 60 کروڑ غریبوں کی مجموعی دولت سے زیادہ سرمایہ ہے۔

دنیا کے 22 امیر ترین مردوں کی دولت افریقہ کی تمام خواتین کی دولت زیادہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیاکہ دنیا کے ارب پتی افراد میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران دگنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر آپ اہرام مصر کی تعمیر کے دور سے یومیہ دس ہزار ڈالر بچت کریں تو آپ کی اب تک جمع شدہ رقم پانچ ارب پتی افراد کی اوسط دولت کا پانچواں حصہ ہوگا۔

ایک فیصد امیر ترین بھارتیوں کے پاس 95؍ کروڑ آبادی سے چار گنا زیادہ دولت ہے ۔ غربت میں کمی کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’’آکسفام‘‘ نے عالمی عدم مساوات سے متعلق 64صفحات پر مشتمل اپنی سالانہ رپورٹ’’ ٹائم ٹو کیئر‘‘ سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے 50ویں اجلاس کے موقع پر جاری کی ۔

رپورٹ میں لڑکیوں اور خواتین کے بارے کہا گیا کہ انہیں سب سے زیادہ غربت کا سامنا ہے۔ دنیا میں خواتین کی تین چوتھائی تعداد بلامعاوضہ کام کرتی ہیں۔ جو 12 ارب 50 کروڑ گھنٹے یومیہ بنتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ان گھنٹوں کا معاوضہ 10 ہزار 800 ٹریلین ڈالر سالانہ بنتا ہے جو ٹیکنالوجی انڈسٹری کے حجم سے تین گنا زیادہ ہے ۔ دنیا میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کے پاس 50فی صد زیادہ دولت ہے۔

دنیا میں17ممالک کی سربراہ،18فی صد وزرا، 24 فیصد اراکین پارلیمنٹ خواتین ہیں۔ 6کروڑ70لاکھ گھریلو ملازمین میں 80فی صد خواتین ہیں۔

دس میں سے ایک کو لیبر قوانین کے تحت مساوی تحفظ ہے،90فی صد کو سوشل سیکورٹی تک رسائی نہیں۔پوری دنیا میں 42 فی صد خواتین بے روزگار ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے وقت میسر نہیں ہے اور ان کی مالی حیثیت بھی اچھی نہیں۔

خواتین جو کام کرتی ہیں ان میں گھریلو کام کاج اور خاندان کا خیال رکھنا شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 42 فیصد خواتین کو ملازمت نہیں ملتی کیوں کہ وہ دیکھ بھال کے کام میں لگی رہتی ہیں جب کہ مردوں میں یہ تعداد صرف چھ فیصد ہے۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عدم مساوات اور امتیازی سلوک کی وجہ سے کچھ طبقوں کی خواتین کو بلا معاوضہ دیکھ بھال کی بھاری ذمہ داری اٹھانا پڑتی ہیں۔ جس کے اثرات صحت پر پڑتے ہیں۔

جو مزید غربت کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستان اور بنگلادیش سے تعلق رکھنے والی خواتین میںتنہائی کا شدید احساس جب کہ بھارت سے تعلق رکھنے والی خواتین ڈیپریشن اور اینگزائٹی زیادہ ہے۔ بھارت کے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ63سرمایہ داروں کے پاس دولت قومی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔

ایک فی صد امیر ترین بھارتیوں کے پاس 95کروڑ آبادی سے چار گنا زیادہ دولت ہے۔بھارت کا2018-19کا کل بجٹ24لاکھ42ہزار2سو کروڑ بھارتی روپے تھا۔آکسفام کے بھارتی سربراہ امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ہماری کمزور معیشتیں عام آدمی اور خواتین کے خرچوں پر ارب پتی افراد اور بڑے تاجروں کی جیبیں بھر رہی ہیں۔

عدم مساوات کے خاتمے کے بغیر امارت اور غربت کی درمیانی خلیج کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر دنیا کے صرف ایک فی صد امیر ترین افراد اپنی دولت پر 10 سال تک صرف اعشاریہ پانچ فی صد اضافی ٹیکس ادا کریں تو اس سے بزرگوں اور بچوں کی دیکھ بھال۔ان کی تعلیم اور صحت کے شعبے میں 11 کروڑ 70 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے درکار سرمایہ کاری کی کمی دور ہو سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ2025تک دو ارب40کروڑ افراد کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی تک رسائی مشکل ہوگی،خواتین اور لڑکیوں کو پانی کی تلاش میں دور تک جانا پڑے گا۔

آئی ایم ایف پروگرامز نے تیونس،مصر اور اردن میں خواتین پر منفی اثرات ڈالے ہیں اور ان سے عدم مساوات بڑھی ہے۔حکومتیں ویلیو ایڈڈ ٹیکس پر انحصار کرتی ہیں جو غریبوں کو متاثر کرتا ہے۔

متعدد ملک خواتین تنظیموں کے بجٹ کی کٹوتی کرتے ہیں۔ انتہائی دولت معاشی نظام کی ناکامی کی علامت ہے۔حکومتوں کو امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو کم کرنا چاہیے۔

دنیا میں 73کروڑ 50 لاکھ افراد انتہائی غربت میں رہتے ہیں۔عالمی بینک کے ایک اندازے کے مطابق دنیاکی نصف آبادی ساڑھے پانچ ڈالر یومیہ سے کم پر گزارہ کرتی ہے۔

تازہ ترین