• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ بلدیہ فیکٹری، مرکزی ملزمان اپنے بیانات سے مکر گئے

سانحہ بلدیہ فیکٹری، مرکزی ملزمان اپنے بیانات سے مکر گئے


سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مرکزی ملزمان عبدالرحمٰن بھولا اور زبیر چریا اپنے بیانات سے مکر گئے۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی۔

بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں 250 سے زائد افراد کو زندہ جلانے کے مرکزی ملزمان آگ لگانے کے اپنے بیانات سے مکر گئے۔

عدالت کے روبرو اپنے بیان میں عبدالرحمٰن بھولا نے کہا کہ بلدیہ فیکٹری سانحے کے وقت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا سیکٹر انچارج تھا۔

دوسرے مرکزی ملزم زبیر چریا نے کہا کہ آگ لگی یا لگائی گئی، اس کے بارے میں نہیں جانتے، ہم فیکٹری میں آگ لگانے میں ملوث نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: بلدیہ فیکٹری کیس آخری مراحل میں داخل

سانحہ بلدیہ کو 7 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت سانحہ بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کا مقدمہ انجام کو نہ پہنچ سکا، 256 افراد کے اہل خانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

11ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاون میں واقع علی انٹر پرائزیز میں لگائی گئی آگ میں250 سےزائد افراد جل کر خاکستر ہوگئے تھے، فیکٹری کو آگ کس نے اور کیوں لگائی؟، مرنے والوں کے اہل خانہ کو آج تک انصاف نہ مل سکا ہے جبکہ استغاثہ کا دعویٰ کیا تھا کہ کیس حتمی مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: فیکٹری مالکان کو آ کر بیان ریکارڈ کرانا چاہئے: ملزم

کیس میں ایم کیو ایم رہنما رؤف صدیقی ضمانت پر ہیں جبکہ سابق سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن بھولا اور زبیر چریا جیل میں ہیں جبکہ کیس میں مرکزی ملزم قرار دیئے گئے حماد صدیقی اورعلی حسن قادری تاحال مفرور ہیں۔

پراسکیوشن کا دعویٰ ہے کہ کیس کے 768 گواہوں میں سے 394 ملزمان کا بیان ریکارڈ ہوچکا ہے جبکہ 364 گواہوں کے نام واپس لے لیے گئے ۔

مقدمے کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ ستمبر 2012ء میں بلدیہ میں علی انٹر پرائز فیکٹری کو آگ 20 کروڑ روپے کا بھتہ نہ دینے پر لگائی گئی تھی۔

تازہ ترین