عالمی سطح پر ترقی یافتہ ممالک چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہو چکے ہیں جبکہ پاکستان نے اب تک اس باب میں کوئی خاص اقدامات نہیں کیے ہیں۔ جب تک ہم خود کو عالمی سطح سے ہم آہنگ نہیں کریں گے۔
تب تک ترقی کی منازل طے کرنا دشوار ہی نہیں، ناممکن ہوگا لہٰذا چوتھے صنعتی انقلاب کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو ترقی کی حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی۔
مک-کینزی گلوبل (McKinsey Global) کے مطابق 2025تک نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کی مالیت سو کھرب امریکی ڈالر ہوگی۔ ایک درجن کے قریب ٹیکنالوجیز ایسی ہیں جن سے سالانہ 33کھرب امریکی ڈالر کی آمدن ہو سکتی ہے۔
ان میں مصنوعی ذہانت، انٹرنیٹ آف تھنکز، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ایڈوانس روبوٹکس، آٹومیشن آف نالج، خود مختار گاڑیاں، جدید ترین مواد، نیکسٹ جنریشن جینومکس، توانائی ذخیرہ نظام، تھری ڈی پرنٹنگ، قابلِ تجدید توانائی، تیل اور گیس کی تلاش کے لیے جدید ٹیکنالوجی وغیرہ شامل ہیں۔
وزیراعظم کی قیادت میں علمی معیشت کے قیام کے اقدامات، ایک انتہائی اہم پروگرام ہے جو پاکستان کو نئے دور میں داخل ہونے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔
نالج اکانومی ٹاسک فورس کے ذریعے منتخب کردہ ترجیحی شعبوں میں اعلیٰ قسم کی زراعت، صنعتی بایو ٹیکنالوجی، تیزی سے ابھرتی ہوئی انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنی ترقی اور مرکب تعلیم (اعلیٰ معیار کے آن لائن اسکول، کالج اور جامعات کی سطح کے کورسز کو روایتی کورسز کے ساتھ ملا کر پڑھانا) شامل ہیں۔
وزیراعظم کی منظوری سے ہماری ٹاسک فورس کے ذریعے ایک اہم منصوبہ شروع کیا گیا جس میں ٹیکس محصول میں اضافے اور ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے نادرا کے ساتھ مل کر کام کرنا شامل تھا۔
جدید مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال کرتے ہوئے پروٹوکول اور الگورتھم کے ذریعے نادرا اور ایف بی آر کے کچھ لین دین کے ریکارڈوں کی جانچ پڑتال کی گئی اور 3ماہ کے اندر اندر ایک اہم نتیجہ یہ نکلا کہ 3.8ملین ٹیکس نادہندگان کی شناخت کی گئی جن پر ایک لاکھ روپے سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی واجب تھی۔
انہیں 30جون 2017کو ختم ہونے والے مالی سال میں انکم ٹیکس کے لگ بھگ 1.6کھرب روپے ادا کرنا تھے! یہ معلومات ایک ویب سائٹ پر مہیا کی گئی جہاں سے ان افراد کو نجی رسائی دی گئی تھی۔
اس کے نتیجے میں 3کھرب روپے تک کے کل اعلان کردہ اثاثے تیزی سے منتقل ہوگئے اور اصل ٹیکس 65ارب روپے بھی ادا کر دیا گیا جو ٹیکنالوجی کے موزوں استعمال ہی سے ممکن ہوا۔یہ ایف بی آر کی تاریخ میں ٹیکس محصول کی اب تک کی سب سے زیادہ رقم ہے۔
پاکستان تقریباً 220ملین آبادی کا ملک ہے جس کی برآمدات صرف 25بلین ڈالر ہیں۔ اس کے مقابلے میں چھوٹا سا سنگاپور جہاں کوئی قدرتی وسائل نہیں اور صرف 5.5ملین (کراچی کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی) کی آبادی ہے وہ 330بلین امریکی ڈالر کی برآمدات کر رہا ہے۔
ہماری برآمدات میں یہ جمود واضح طور پر یکے بعد دیگرے جمہوری نظاموں کی زبردست ناکامی ثابت کرتا ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمارے سابق سیاسی رہنماؤں کی جانب سے جمہوریت کے قیام کے لیے جو بھی دعوے کیے گئے، سب بے بنیاد رہے۔
جمہوریت کا بنیادی عنصر بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانا اور فنڈز کو نچلی سطح تک پہنچانا ہوتا ہے جبکہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں صوبائی حکومتوں کی سخت مزاحمت ان کا فنڈز پر اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے ارادوں کا واضح ثبوت ہے جنہیں وہ اقتدار میں رہتے ہوئے ذاتی اثاثوں میں تبدیل کرتے ہیں۔
ماضی میں ہمیشہ قصداً سب سے کم ترجیح تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کو دی گئی تاکہ جاگیردار اپنا مضبوط شکنجہ برقرار رکھیں اور جمہوریت کے بجائے ’’جاگیرداری‘‘ قائم رہ سکے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ موجودہ نظام حکمرانی ختم کیا جائے جس سے لوگوں کو تکالیف کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔
معاشرتی و اقتصادی ترقی کا ایک اہم عنصر تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم ہے۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے اس کے قیام کے ابتدائی برسوں میں 2002تا 2008شاندار کامیابیاں حاصل کیں، جہاں تعداد کے بجائے معیار پر زور دیا گیا۔ ان اصلاحات کی تعریف میں دنیا کے اعلیٰ ترین جریدے، نیچر میں 4ایڈیٹوریل شائع ہوئے۔
دنیا کے سب سے معروف سائنسی ادارے رائل سوسائٹی (لندن) نے اسلامی دنیا میں سائنس سے متعلق ایک کتاب شائع کی جس میں پاکستان کی اعلیٰ تعلیمی اصلاحات کو بطور ماڈل تسلیم کرتے ہوئے دوسرے ممالک کو اس کےنقش قدم پر چلنے کی صلاح دی گئی۔
ایچ ای سی کے ذریعہ گزشتہ 5سالوں میں سب سے بڑی تعداد میں غیر ملکی وظائف جو امریکہ، برطانیہ، جرمنی، سویڈن یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کیلئے نہیں بلکہ ہنگری کیلئے تھے، جو اس کی موجودہ ترجیح کو معیار کے بجائے نمبروں پر ترجیح دیتے ہیں۔
ایک انتہائی خطرناک ملک دشمن رجحان جس کی وجہ ایچ ای سی کی کچھ حکمت عملیاں ہیں، وہ پوسٹ گریجویٹ تحقیق کو نظر انداز کرنا ہے۔ تحقیقی پروگراموں کو فروغ دینے کیلئے خرچ کی جانے والی رقوم میں کمی آچکی ہے۔
جس سے محققین کیلئے تکلیف دہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے محققین نے مایوس ہوکر ملک چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے دشمن اس پر خوش ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ غیر معیاری یونیورسٹیوں کا قیام بھی ہماری ناک تلے ہو رہا ہے مثال کے طور پر پنجاب میں 6یونیورسٹیاں تعمیر کی جائیں گی جن میں سے ہر ایک کے لیے صرف ایک ارب روپے مختص ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی دھوکا دہی ہے کیونکہ ایک اچھی چھوٹی یونیورسٹی بنانے پر بھی اب 15سے 20ارب روپے لاگت آتی ہے۔
یونیورسٹیاں صرف اینٹ اور مارٹر نہیں ہیں۔ یونیورسٹی کا مطلب ایک اعلیٰ درجے کی فیکلٹی ہے جس میں تحقیق کا بہترین ماحول ہوتا ہے۔ وزیراعظم کو پنجاب میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے اس مذاق کو ذاتی طور پر دیکھنے اور اسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم کو اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی بحالی کی ذاتی طور پر نگرانی اور ایچ ای سی کو اضافی مالی مدد کی پیشکش کرنی چاہئے، یونیورسٹیوں میں جدت اور تحقیق کو فروغ دینے کیلئے خصوصی اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کرنا چاہئے اور اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان کی ہدایات پر مکمل عمل ہو رہا ہے۔