• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منوبھائی کی برسی پر اُن کی کئی نظموں کا، ڈراموں کا حوالہ دیا گیا جن میں ’’ہو نہیں جاندا کرنا پیندا اے‘‘ ایک بہت بڑا سبق تھا کہ انسان کو حالات بدلنے کے لئے جدو جہد کرنی ہے صرف باتیں نہیں کرنی اور پھر اُن کی ضرب المثل نظم ’’احتساب کے چیف کمشنر صاحب بہادر‘‘ در اصل ہماری پورے معاشرے کا منظر نامہ ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کی آنکھوں دیکھی بلکہ جھیلی ہوئی، برداشت کی ہوئی تصویر ہے۔ منوبھائی نے تمام عمر مقصدیت کی حامل زندگی گزاری۔ وہ زندگی جو ہر صاحبِ نظرکو گزارنی چاہئے۔ اُن کا مقصد انسانیت کی توقیر اور فلاح سے جڑا تھا اور ایسا مقصد عمر کا قیدی نہیں ہوتا نہ ہی موت کے ساتھ مرتا ہے۔ منو بھائی آج بھی ہمارے درمیان ہیں، ہماری حسرتوں کو خواہشوں میں بدلنے کا گُر سمجھاتے ہوئے اُن کی تحریریں ہماری افسردگی کا ہاتھ تھام کر نئی آرزو کا پھول ہماری ہتھیلی پر رکھ کر کہتے ہیں ’’زندہ ہو تو جیو‘‘۔ تھیلیسیمیا سے متاثرہ ہزاروں اجسام میں خون کے ذرات جب سانس بحال کرتے ہیں تو انکے چہروں پر اُبھرنے والی حیات کی رونق میں منو بھائی کی مسکان بھی شامل ہوتی ہے۔

ہم سب دوسروں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی نصیحت کرتے ہیں اور اگر وہ نہ مانیں تو ذرا سی خطا پر اُن کا گریبان پھاڑ دیتے ہیں مگر کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ گریبان میں جھانکنا دراصل اپنے اعمال کا منطقی اور عقلی حوالے سے جائزہ لینا ہے تبھی تو صائب اور غیر صائب اعمال کے درمیان فرق محسوس ہوتا ہے لیکن جب آنکھوں پر عقلِ کل کی پٹی بندھ جاتی ہے تو پھر انسان اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور عمل کے بجائے تلقین کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ منو بھائی ہمارے درمیان ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈرامہ لکھا تو ایک دنیا کو اپنا گرویدہ کیا۔ شاعری کی تو صاحبِ طرزِ سخن ور کے طور پر ہمکلام ہوئے۔ کالم لکھے تو نبضِ عالم ہاتھ میں تھام کر بیماریوں کی بہترین تشخیص کی۔ مضامین لکھے تو نیا طرزِ سخن ایجاد کیا۔ منو بھائی اپنے گریبان میں جھانکنے کا درس دیا۔ وہ روزانہ اپنے گریبان میں جھانکتے تھے، پھر پوری کائنات اُن کے گریبان میں سما جاتی تھی۔ وہاں انہیں جو خامیاں نظر آتی تھیں تحریر کرتے تھے۔ منو بھائی کا یہ ’’گریبان‘‘ سنبھالنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ’’گریبان‘‘ ایک عہد کی تاریخ ہے، ایک سبق ہے جس میں کئی نسلوں کی رہنمائی موجود ہے۔

جب دانشور مصلحت کا شکار ہو کر خاموش ہوجاتا ہے تو کم عقل اور تنگ نظر ظلم اور جہالت کی لاٹھی سے سماج کو ہانکنے لگتے ہیں۔ ہم میں سے اکثریت منو بھائی کو پسند کرتی ہے تو ان جیسا حوصلہ کیوں نہیں رکھتی۔ سچ کیوں نہیں لکھتی، ظلم کو کیوں نہیں للکارتی۔ اُن کے بنائے ہوئے راستے پر کیوں نہیں چلتی جس پر چلنے سے قدم قدم منزل کی بشارتیں ہیں۔ جنگ اخبار کا ایک یہ بھی اعزاز ہے کہ اس نے بڑے لوگوں کے نظریات کا وزن اُٹھایا، جھیلا اور ایک راہگزر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں تو منو بھائی کی تمام عمر فلاح عامہ میں گزری۔ اُنہوں نے لفظوں کا لنگر خانہ کبھی بند نہ ہونے دیا۔ نفسیات دان تھے تو ہر نفس کو اس کی فطرت کے مطابق درسِ گویائی دیا۔ لفظوں کی ادائیگی سے ان کے دل اور پیٹ کا حال سمجھ لیتے تھے۔ ہمیشہ لوگوں کی سمجھ بوجھ اور استطاعت کے مطابق علمی اور عقلی تعویذ بانٹتے رہے۔ اپنائیت کا یہ عالم کہ ایک بار ملنے والا بھی دعویٰ کرنے لگے کہ وہ سب سے زیادہ اس سے محبت کرتے تھے۔ وسائل کی برابری کے لئے تڑپتے رہے۔ نامساعد حالات میں بھی ناممکنات کو ممکن بنانے کی بات کی۔ ان کی برسی پر سندس فاؤنڈیشن میں میلہ لگا ہوا تھا۔ صرف منو بھائی کو خراجِ تحسین نہیں تھابلکہ ایک عزم کی تجدید کا دن تھا۔ میں نے انہیں ان تمام لوگوں کی اُمیدوں میں دیکھا جن کے درد کا وہاں مداوا ہورہا تھا۔ جن کے دُکھوں پر نرم پھاہے رکھے جارہے تھے۔ خون کی کمی کا شکار بچے اور بڑے اس درِ فیض سے فیض لے کر لوٹتے ہیں تو دعاؤں اور شکریے میں یٰسین خان کے ساتھ منو بھائی کو بھی یاد کرتے ہیں۔ منو بھائی جیسے لوگ کبھی نہیں مرتے۔ ایک جہان سے دوسرے جہان میں چلے جاتے ہیں۔ یہاں سے بس ان کے جسم کی مٹی غائب ہو جاتی ہے مگرمحبت کا دیا روشن رہتا ہے۔ اس لیے ان کی برسی نہیں سالگرہ منانی چاہئے۔ ہم جو منو بھائی کی فکر کے متوالے ہیں، کو اب ان کے مصرعوں کو سنہری اصول بنا کر عمل کی رہگزر پر قدم رکھ دینا چاہئے۔

جو توں چاہنا ایں، اوہ نہیں ہونا

ہو نہیں جاندا، کرنا پیندا اے

عشق سمندر ترنا پیندا اے

سکھ لئی دکھ وی جھرنا پیندا اے

حق دی خاطر لڑنا پیندا اے

جیون دے لئی مرنا پیندا اے

تازہ ترین