• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:چوہدری محمد الطاف شاہد۔۔برمنگھم
2018ء کے عام انتخابات میں سیاسی طور پر معتدل اور چاروں صوبوں کیلئے قابل قبول سیّد مصطفیٰ کمال کو آزمانے کی بجائےعمران خان کو وزیراعظم بنانے کا ناکام تجربہ کیا۔ پی ایس پی کو جس طرح ایوان میں رسائی سے روکا گیا وہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سیّد مصطفیٰ کمال کو معمار کراچی کہا جاتا ہے، اگر ایک سازش کے تحت ان کا راستہ نہ روکا جاتا تو یقیناً آج پاکستان کی معیشت اس قدر ابتر حالت میں نہ ہوتی۔ الیکشن سے قبل نوجوانوں کا ایک طبقہ عمران خان کے حق میں ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے بڑا پُرامید اور خوش تھا کہ سات دہائیوں سے ہم جس نجات دہندہ کا خواب دیکھ رہے تھے وہ آگیا ہے، اب ہماری ساری پریشانیاں اور دشواریاں دور ہو جائیں گی اور ہم لوگ دنیا میں ایک غیرت مند اور خود دار قوم بن کر ابھریں گے، عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس ملک میں آ جائے گا، ہر طرف کاروبار اور وسائل کی بہار ہوگی، مہنگائی، کرپشن اور ناانصافی کا نام و نشان تک نہیں ہوگا۔ ملک میں ہر طرف امن و امان کی فضا ہوگی۔ یہ وہ خواب تھے جو پاکستانیوں نے ڈیڑھ برس پہلے جاگتی آنکھوں سے دیکھے تھے اور اب جب آنکھ کھلی ہے تو سہما بیٹھا ہے۔ کیا تبدیلی کا خواب دکھانے والے سچے تھے ؟ آخر کس طرح کوئی عقلمند شخص ایسے وزیروں مشیروں کے ہوتے ہوئے کوئی کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے۔ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے لوگ ضروریات زندگی پورا کرنے سے قاصر ہیں، عام آدمی کے نالے اب کوئی اہمیت نہیں رکھتے، کس کس بات پر روئیں، مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں اب یہ بھی یاد نہیں رہتا کس ظلم پر احتجاج کریں، حالیہ آٹا اور چینی بحران کے بعدجہاں عوام میں شدید بے چینی ہے وہاں حکومت کے وزیروں کے مسخرے پن نے میرے جیسے اعتدال پسند شخص کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بدحالی کو تبدیلی کا نام دے کر عوام کو بیوقوف بنایا اور ان کی محرومیوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کو فوجی آمر کہا گیا یا ایسا ڈکٹیٹر جس نے بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور فنڈز منتقل کئے، یہ بات اب کوئی ہوشمند پاکستانی سننے کیلئے تیار نہیں۔ پرویز مشرف دور حکومت آج کی حکومت سے ہزار درجے بہتر تھا، ڈالر کنٹرول میں تھا، ہر چیز حکومت کی دسترس میں تھی کاروبار کے مواقع پیدا ہو رہے تھے، مہنگائی قابو میں تھی، پٹرول، گیس، بجلی، پانی کی قیمتیں آسمان پر نہیں اڑ رہی تھیں، مایوسی کم ہو رہی تھی لوگ خوشحال ہو رہے تھے۔ آج سوائے ایک مخصوص ٹولے کے ہر شخص پریشان ہے، عوام تبدیلی سرکار سے متنفر اور بیزار ہیں۔ لوگ اگر شاہراہوں پر نہیں نکل رہے تو اس کی وجہ صرف اپوزیشن پارٹیوں کی خاموشی اور اپنے اداروں کا احترام ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ پی ایس پی کی قیادت کے سوا نام نہاد اپوزیشن عوام کو اس نااہل حکومت کے رحم و کرم پہ چھوڑ چکی ہے اور اگلے دو ڈھائی سال مزید یہ خاموشی ٹوٹتی نظر نہیں آتی۔ میرے جیسے ایک عام آدمی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ ملک کی باگ ڈور کسی وردی پوش سرفروش کے ہاتھوں میں ہو یاشیروانی میں ملبوس نادان 22کروڑ پاکستانیوں پر راج کرے، یہ سارے چونچلے حرام کے مال سے بھری توندوں کی کارستانیاں ہیں۔ ایک عام آدمی صرف روزگار، وسائل اور مالی پریشانیوں سے چھٹکارا چاہتا ہے، اس کیلئے بنیادی ضروریات زندگی اور بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت ہی سب سے اہم معاملہ ہے۔ حکمران ٹولے میں شریک لوگ نا صرف بیچارے عوام کو زخم دیتے ہیں بلکہ اپنے کڑوے لہجے سے ان پرنمک پاشی بھی کرتے ہیں۔ پاکستان اورپاکستانیوں کوسیّد مصطفیٰ کمال جیسی تجربہ کار، پُرجوش اورپُرعزم قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر سیّد مصطفیٰ کمال اپنے عزم و استقلال سے شہر قائدؒ کی روشنیاں بحال کرسکتے ہیں تو یقیناً وہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی کایا پلٹ دیں گے۔ سیّد مصطفیٰ کمال ان دنوں چاروں صوبوں کے دوروں پر ہیں، لاہور سے لاڑکانہ تک ہر موڑ اور ہر مقام پر انہیں جو عقیدت و احترام دیا گیا وہ خوش آئند ہے۔
تازہ ترین