• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں ہماری پالیسی پر چلنے والا افسر ہی رہے گا، وزیراعلیٰ

سندھ میں ہماری پالیسی پر چلنے والا افسر ہی رہے گا، وزیراعلیٰ


وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ انہیں کئی ماہ قبل یہ پیشگی اطلاع مل گئی تھی کہ پولیس سندھ حکومت کی شخصیات کے خلاف جھوٹے کیس بنائے گی، اس معاملے کی تحقیقات ایک اچھے پولیس افسر سے کروائی گئی لیکن آئی جی سندھ نے یہ رپورٹ ہی دبالی۔

سندھ حکومت آئی جی پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے، لیکن وہ اب اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں، اس صوبے میں وہی افسر چلے گا جو ہماری پالیسی پرچلے گا۔

انہوں نے یہ بات جمعرات کو سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی خرم شیر زمان کی جانب سے آئی جی سندھ کے تبادلے سے متعلق ایک توجہ دلاﺅ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہی۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ الزام تو سب سے پہلے مجھ پر لگا کہ میں ایک دہشت گرد سے ملا ہوں۔ کچھ عرصے قبل ایک دہشت گرد کے پاس اخباری نمائندے کو رسائی بھی دی گئی، جس کا مقصد مجھے بدنام کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر میں کسی دہشت گرد سے ملا ہوں تو کارروائی کرو۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمارے قانون کے مطابق وزیراعلیٰ اور آئی جی کی مشاورت سے ایس ایس پی لگتا ہے، ہمیں بلا وجہ الزام نہ دیا جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ شکارپور کے ایس ایس پی رضوان کی آئی جی نے سفارش کی تھی۔

لیکن یہ اچھے افسر نہیں ہیں، اس ایس ایس پی کے خلاف اس کے ایڈیشنل آئی جی نے رپورٹ دی۔

انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اکتوبر میں ایک ڈاک آئی کہ پولیس ہمارے خلاف من گھڑت کیس بنائے گی، میں نے ایک اچھے افسر سے انکوائری کروائی، مگر وہ انکوائری رپورٹ مجھے آج تک نہیں ملی، کیونکہ وہ رپورٹ آئی جی پولیس نے دبالی ہے۔

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ پولیس میں کچھ کالی بھیڑیں بھی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ امتیاز شیخ نے دس دفعہ آئی جی کو شکار پور پولیس کے بارے میں بتایا، لیکن ایس ایس پی چونکہ آئی جی کا چہیتا تھا اس لیے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایس ایس پی نے جن آٹھ لوگوں کےخلاف ایف آئی آر درج کی وہ ملک میں ہی موجود نہیں ہیں۔ ایک نااہل پولیس افسر کو شکارپور میں لگایا گیا۔ شکار پور میں 22 غریب گاؤں والوں کو اے ٹی سی دفعات پر چالان کیا گیا، لیکن اب آئی جی پولیس کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام آئی جی کو مسترد کرچکے ہیں، سندھ کابینہ نے بھی ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ آئی جی پولیس اب اوچھی حرکتوں پر اترآئے ہیں۔ وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نے کہا کہ میڈیا میں رپورٹس چلیں اور ڈاکٹر رضوان کی طرف سے صوبائی وزراء پر سنگین الزامات لگائے گئے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے لوگ ہوں یا پھر ایس ایس ایس پی، جو غلطی پر ہو اس کو سزا دی جائے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ ایک نالائق پولیس افسر نے منتخب رکن اسمبلی کے خلاف بھونڈی رپورٹ بنائی ہے۔ سعید غنی پر دوسال پرانی رپورٹ ڈال دی گئی۔

اگر امتیازشیخ کرمنل ہے تو پولیس نے گرفتار کیوں نہیں کیا؟ کیا وزیر اعلیٰ نے گرفتاری سے روکا تھا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئی جی نے چیف سیکریٹری کو خط لکھا کہ مجھ سے پوچھے بغیر افسران کی خدمات واپس کی گئیں، بڑی ہوشیاری سے آئی جی کا خط میڈیا میں لیک کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں چار بار آئی جی تبدیل ہوگئے اور وہاں امن وامان کی صورتحال بھی خراب ہے، تاہم سندھ کے بارے میں یکطرفہ کام نہیں چلے گا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے اس معاملے پر تین بار بات ہوئی ہے جس پر انہوں نے مجھے یقین دہانی کرائی ہے، تاہم اس کی تفصیل میں اپوزیشن لیڈر کو بتانے کا پابند نہیں ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آئی جی پولیس کو چلانے کی کوشش کی مگر وہ اس قابل نہیں کہ انہیں سندھ میں مزید رکھاجائے، آئی جی کو کرسی سے چمٹے رہنا کا شوق ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ آئی جی کی تبدیلی کا معاملہ وفاقی وصوبائی حکومت کے درمیان ہے، ہم آئین قانون کےمطابق چلیں گے، ہمیں اپنی ٹیم منتخب کرنےکا حق ہے۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کیامجھے پتہ نہیں چلتاکہ وہ افسر کس سے فون پر بات کررہاہے آئی جی پولیس اب پارٹی بن چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم افسران کو سیاست میں حصہ نہیں لینے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ مجھے کہاگیاہے کہ وزیراعظم وطن واپس آتے ہی فیصلہ کرلیں گے اور آئی جی سندھ کو تبدیل کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں کوئی ناکام افسر نہیں چل سکے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سناہے کہ پنجاب میں چیف سیکریٹری تبدیل ہورہاہے اس صوبے میں وہی افسر چلے گا جو ہماری پالیسی پرچلے گا، اس صوبے کے لوگونے پیپلزپارٹی کو منتخب کیاہے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے کبھی کسی ایک پولیس افسر کی بھی کوئی سفارش نہیں کی۔

تازہ ترین