• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرپشن دنیا بھر میں قابلِ نفرت عمل ہے کہ اس سے دوسروں کی نہ صرف حق تلفی ہوتی ہے بلکہ بدعنوانی آکاس بیل کی طرح پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر پژمردہ کر دیتی ہے۔ عربی زبان کی ضرب المثل ہے کہ ’’مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہوتی ہے’’ مطلب یہ کہ کسی بھی معاشرے کی بالائی پرت جو طرزِ عمل اختیار کرتی ہے وہ نچلی سطح تک ضرور سرایت کرتا ہے۔ کرپشن کے لحاظ سے وطن عزیز بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے، کیا کوئی ہے جو تیقن سے اپنے محکمے یا شعبے کے بارے میں کہہ سکے کہ وہاں کرپشن کا نام و نشان نہیں۔ یہ صورتحال تشویشناک ہے جس کا اظہار اگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی کر دیا ہے تو کسی کو جزبز ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اصلاحِ احوال کی فکر کرنی چاہئے۔ اپنا چہرہ گرد آلود ہو تو آئینے پر تھوکنا عبث فعل ہے۔ آئینہ توڑنے یا اس میں نقص نکالنے کے بجائے اپنا چہرہ دھو کر صاف شفاف کرنا ہی دانشمندی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اگر کرپشن میں کمی کے بجائے اضافے کی رپورٹ دی ہے تو اس کے مندرجات کو غور سے دیکھتے ہوئے اصلاح کی فکر اور کوشش کرنے میں ہی بہتری ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا دس سال میں کم ہوتا کرپشن انڈیکس 33سے بڑھ کر 32ہو گیا ہے۔ عالمی رینکنگ میں کمی 117سے 120ہو گئی۔ عالمی ادارے نے اپنی سفارشات میں لکھا کہ کرپشن روکنے کے لئے شہریوں کو بااختیار کیا جائے۔ سماجی کارکنوں، نشاندہی کرنے والوں اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات الگ کئے جائیں۔ سیاسی فنانسنگ، سیاست میں پیسے، اثر و رسوخ، مفادات کے تصادم، بھرتیوں کے طریقہ کار کو کنٹرول کیا جائے، لابیز کو ریگولیٹ، الیکٹورل ساکھ کو مضبوط اور غلط تشہیر پر پابندی عائد کی جائے۔ یہ خیال رہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے 180ممالک میں کرپشن کے حوالے سے 2018ء کی رپورٹ جاری کی ہے جس سے یہ عیاں ہوا ہے کہ بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش، ایران، جرمنی، امریکہ، برطانیہ، جاپان اور فرانس سمیت جی سیون ممالک میں بھی کرپشن بڑھی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے تشویشناک امر یہ ہے کہ گزشتہ دس برس میں یہ پہلی بار کرپشن انڈیکس میں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے گیا ہے اور یہ سب نیب کی کارکردگی میں بہتری کے باوجود ہوا۔ اسے اس لئے بھی زیادہ حیرانی و پریشانی سے دیکھا جا رہا ہے کہ یہ اس حکومت کے پہلے سال میں ہوا جو کرپشن کی مخالفت پر عوامی مینڈیٹ حاصل کر کے برسر اقتدار آئی اور اس نے کرپشن کا قلع قمع کرنے میں کوئی دقیقہ بھی فروگزاشت نہ کیا، یہاں تک کہ اس پر سیاسی انتقام کے الزامات بھی عائد ہوئے، تاجر برادری اور بیورو کریسی نے نیب کے خوف سے سرمایہ کاری اور فرائض کی انجام دہی سے بھی ہاتھ کھینچ لیا، یہاں تک کہ نیب قانون میں ترمیم کرنا پڑی اور بیورو کریسی کو بھی تحفظ کا احساس خود وزیر اعظم نے دلایا تاہم زمینی حقائق عیاں کرتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی ایسا سقم موجود ہے جس کے باعث حالات بہتر ہونے کے بجائے ابتر بتائے جا رہے ہیں۔ حکومت کو یہ خامیاں یا کجیاں تلاش کر کے دور کرنا ہوں گی جو اس کی شبانہ روز محنت کے الٹے نتائج کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ نہ تو کرپشن فری ہے نہ ہو سکتا ہے، جہاں انسان ہے وہاں گناہ اور جرم بھی ہے البتہ سخت ترین قوانین اور ان کے بہترین نفاذ سے جرائم اور کرپشن کی شرح میں کمی ضرور لائی جا سکتی ہے جیسا کہ مغربی ممالک اپنے معاشروں میں لائے۔ اب تو جدید ترین ٹیکنالوجی کی معاونت بھی میسر ہے۔ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ بلاشبہ ہمارے لئے الارمنگ ہے ہمیں اس کی سفارشات سے استفادہ کرنے میں بھی تامل نہیں ہونا چاہئے تاکہ کرپشن کی شرح بڑھنے کے بجائے کم ہو اور کرپشن کی بیخ کنی کی حکومتی ہی نہیں قومی خواہش بھی پوری ہو۔ ہمیں اپنے آلام سے نجات چاہئے تو کرپشن کا سدباب کرنا ہی ہو گا۔

تازہ ترین