• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر… بھارتی یوم جمہوریہ یا یوم سیاہ

تحریر۔۔روبینہ خان۔۔۔ مانچسٹر
مقبوضہ کشمیر کی وادی ایک بار پھر برف سے ڈھکی ہوئی ہے ۔کئی موسم آئے اور چلے گئے لیکن کوئی موسم اگر اس وادی پر آ کر ٹھہر گیا ہے تو وہ ظلم اور جبر کا موسم ہے جو جانے کا نام نہیں لے رہا ۔حال ہی میںیونائیٹڈ نیشن سیکورٹی کونسل کا اجلاس منعقد ہواجو 2020 کا پہلا اجلاس ہے۔ اس اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں بحث کی گئی۔اس سے قبل2019 میں پانچ دہائیوں کے بعد مسئلہ کشمیر پر بات ہوئی۔ 50 سال کی خاموشی کے بعد ظلم کے خلاف آواز بلند ہوئی . 1965 کے بعد یہ یونائیٹڈ نیشن سیکورٹی کونسل کا اجلاس تھاجو کہ چائنا کی درخواست پر بلایاگیا تھا۔چائنہ نے دنیا کو متوجہ کیا کہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے دوران میں ٹینشن کو ختم کیا جانا چاہئے۔اس کے لیے با معنی گفتگو کا آغاز ہو ا تو ہےلیکن رفتار انتہائی سست ہے۔اب تک ہونے والے اجلاسوں میں جس بات پر بحث ختم کی جاتی ہے اسی سے، اگلے اجلاس کی شروعات ہونی چاہیے مثال کے طور پر دسمبر 2019 کے اجلاس میں سیکورٹی کونسل نے یو این ملٹری آبزرور گروپ انڈیا اور پاکستان سے کہا تھا کہ وہ مقبوضہ وادی کشمیر پر رپورٹ تیار کرے۔بعدازاں اس کو سیکیورٹی کونسل میں پیش کیا جانا چاہیے تھا۔اس رپورٹ کو پیش کیا گیا یا نہیں،اس بارے میں کچھ اطلاعات نہیں ہیں۔حالیہ یو این ایس سی کا اجلاس بند دروازوں کے پیچھے ہی منعقد ہو ا ہے تاہم عمارت کی کوریڈورز میں چائنا کی سفیر نے بتایا کہ انڈیا اور پاکستان کا ایشو سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے پر ہوتا ہے۔حالیہ دنوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بحث ہوئی ہے۔یونائیٹڈ نیشن کے چارٹر پر کشمیر متنازع علاقے کے طور پر مانا گیا ہے لیکن جب بھی انڈیا اور پاکستان کے درمیان مقبوضہ کشمیرر کی وجہ سے حالات خراب ہوتے ہیں اور لائن آف کنٹرول پر وائلنس کی بات ہوتی ہےتو ویسٹرن ورلڈ اس کو پاکستان اور انڈیا کا مسئلہ سمجھ کر اس میں ملوث ہونے سے گریز کرتا ہے جبکہ چائنا واضح طور پر مقبوضہ کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتا ہےاور اسلام آباد کے اس مطالبے کی حمایت کرتا ہے کہ جس میں کشمیریوں کو ان کی حق خود ارادیت دیئے جانے کی بات کی جاتی ہے۔اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی کشمیر کے سلسلے میں مسلسل کوشش نہیں رہیں ۔مسئلہ کشمیرپرکہیں زیادہ سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر جس کی خوبصورتی کی مثال جنت سے دی جاتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہاں رہنے والوں کو ارد گرد پھیلی خوبصورتی کا احساس بھی نہ رہا ہوکیونکہ ان کی زندگی خوف اور سراسیمگی میں گزر رہی ہے۔انسان گھروں میں بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے ۔نوجوان ،بیٹے اور بھائی گھروں سے اٹھا کر نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ ان پر عسکریت پسندی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔چشم تصور میں دیکھیں کہ شادی کا گھر ہے اور تمام حفاظتی اقدام کے باوجود پتہ چلتا ہے کہ شادی کی خوشیاں روٹھ چکی ہیں۔ ماؤں کےجگر کے ٹکڑے کہاں ہیں، ان کو کچھ معلوم نہیں ۔پیلٹ گنز، خاردار تاریں،اور آنسو گیس جیسی چیزوں کا استعمال مقبوضہ کشمیر میں روزمرہ کا معمول ہے۔بہتر سال سے میدان جنگ بنا ہو ا علاقے میں انسانی حقوق بری طرح سے روندے گئے ہیں۔کتنی مائیں اور عورتیں جسمانی اور ذہنی اذیتوں سے گزری ہو ں گی ۔نارمل زندگی کا تصور ہی نہیں ہے ، اور رہی سہی کسر پانچ اگست کے بعد کی صورتحال نے پید ا کر دی ہے۔جب مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا گیا۔ 173 دن گزرنے کے باوجود لاک ڈان برقرار ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت نے جموں کشمیر کو فوجی چھاؤنیوں میں بدل دیا ۔ بےگناہ اور نہتے کشمیریوں کے قتل پر مقبوضہ وادی میں آہ وبکا کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا جنوری کا مہینہ ان کشمیریوں کے زخم تازہ کر دیتا ہے جنوری 1990 میں انڈین سپاہیوں نے کپواڑہ ،سپوره اورگینڈر بال علاقوں میں کشمیریوں کا قتل عام کیا تھا۔سات دہائیوں سے اپنے حقوق کے لئے لڑتے ہوئے کشمیری 26 جنوری کو ایک بار پھر دنیا کو یاد دلانے کے لیے تیار ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈین ریپبلک ڈے کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔کشمیری رہنماؤں نے دنیا بھر میں رہنے والے کشمیریوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 26 جنوری کو نام نہاد یوم جمہوریہ پر حق خودارادیت کا مطالبہ دہرائیں گے۔دنیا بھر کو بتائیں گے کہ انسانی تاریخ کے بد ترین مظالم آج کی جمہوریت پسند ملک بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جارہے ہیں ۔لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے جو نہ صرف بین الاقوامی انسانی حقوق کے مسلمہ قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ ان ہتھکنڈوں سے بھارت ،مقبوضہ کشمیر میں کچھ حاصل نہیں کرسکے گا۔مقبوضہ وادی میں امن کا واحد حل کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے میں ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے پاس کوئی دوسر ا راستہ نہیں ہے۔
تازہ ترین