• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ 2019ء یعنی تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ہوا ہے۔ 

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2010سے 2018ء تک پاکستان میں کرپشن میں سال بہ سال کمی ہوتی رہی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے دوران کرپشن کے خلاف اقدامات کی وجہ سے پاکستان کا کرپشن انڈیکس بہتر ہوتا رہا۔

تحریک انصاف کا بیانیہ ہی یہ تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ملک کو لوٹا ہے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کا صرف یہی ایجنڈا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے اس بیانیہ کے برعکس اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ 

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے تو ساری تدبیریں اُلٹی کر دی ہیں۔

ویسے تو کرپشن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے۔ کرپشن نہ ہو تو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا پورا ڈھانچہ مُنہدم ہو جائے۔ نظام کے تحفظ اور مضبوطی کے لئے کرپشن کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کرپشن ازخود نظام ہے تو غلط نہ ہوگا۔ 

دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس بھی یہی کہتے ہیں کہ سرمایہ داری کو کوئی بھی شخص شفاف نظام تصور نہیں کرتا۔ امریکہ کے معروف ارب پتی اور آئندہ انتخابات میں ممکنہ صدارتی اُمیدوار اینڈریو یانگ کا کہنا یہ ہے کہ میں ایک سرمایہ دار ہوں اور میرا یقین ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو جاری رکھنے کے لئے عالمگیر بنیادی آمدنی ضروری ہے۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ کمزور قوموں اور طبقات کا استحصال ضروری ہے۔ کرپشن کے بغیر استحصال ناممکن ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں تو خود ریاست اور ریاستی ادارے اس نظام کے محافظ اداروں کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے کرپشن اور شفافیت کے جو معیارات قائم کرتے ہیں وہ بھی اسی عالمی سرمایہ دارانہ کے بیانیہ کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں۔ 

یہ ادارے جو تصویر کشی کرتے ہیں، حقائق اُس سے کہیں زیادہ بھیانک ہوتے ہیں۔ ان معیارات کے مطابق سرمایہ دار ملکوں میں شفافیت زیادہ ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک ترقی پذیر اور غریب ممالک کے وسائل کی لوٹ مار کی بنیاد پر اپنا نظام چلا رہے ہوتے ہیں۔ 

ٹرانسپیرنسی جیسے اداروں کے لئے عالمی سرمایہ دار لوٹ مار اور استحصال کرپشن نہیں ہے۔ ان کے معیارات کے مطابق ترقی پذیر اور غریب ممالک میں زیادہ کرپشن ہوتی ہے۔ 

اعداد و شمار کی وضاحت کے لئے اس کرپشن کے اسباب تو بیان کیے جاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غیر شفاف اور کرپٹ سسٹم کی وجہ سے سرمایہ دار ملکوں میں شفافیت اور کم کرپشن والا نظام قائم ہے۔ بہرحال کرپشن سرمایہ داری کی ضرورت ہے۔ 

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان تحریک انصاف کا بیانیہ غیر موثر بنا دیا ہے۔ یہ صرف کرپشن انڈیکس میں ایک پوائنٹ اضافے سے ہوا ہے۔ اس سے پاکستان پر جو سیاسی اثرات مرتب ہوں گے، وہ بھی اعداد و شمار وضع کرنے والوں کے ذہن میں ہوں گے۔ 2019ء میں کرپشن میں اضافے کی بات کو عوام اور خواص بھی شاید نہیں جھٹلائیں گے کیونکہ جو کام پہلے آسانی یا کم رشوت سے ہو جاتے تھے وہ اب مشکل اور زیادہ رشوت سے ہونے لگے ہیں۔ 

ہم اس بحث میں نہیں اُلجھتے کہ ٹرانسپیرنسی کے اعداد و شمار کس حد تک درست ہیں لیکن وہ عمومی تاثر سے متصادم نہیں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان اعداد و شمار سے تحریک انصاف کا بیانیہ دم توڑ چکا ہے۔ یہ شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بڑی کایا پلٹ سے ہو سکتا تھا۔

تحریک انصاف کا بیانیہ بنیادی طور پر پاکستان کی حقیقی حکمران اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ تھا جس کے مطابق صرف سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں اور ساری تباہی کے ذمہ دار سیاستدان ہیں۔ تحریک انصاف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے ایسا سیاسی بیانیہ بنایا جس کا بظاہر فوری طور پر توڑ نظر نہیں آرہا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے یہ کام کر دیا ہے۔ 

پاکستان میں کرپشن کے تدارک اور حقیقی احتساب کے لئے اس بیانیہ سے چھٹکارا ضروری ہے کیونکہ سیاستدانوں کے احتساب کے نعرے کے پیچھے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’’احتساب‘‘ پر جس قدر سمجھوتا اس حکومت میں کیا گیا، پہلے کسی حکومت نے نہیں کیا۔ 

نیب آرڈیننس کا اطلاق تاجروں، صنعتکاروں اور بیورو کریٹس کے لئے نرم کر دیا گیا جبکہ عام لوگوں کو ایسے نیب قوانین سے رگڑا دیا گیا جن قوانین پر عدالتوں نے بھی اعتراضات اُٹھائے۔ 

احتساب کا نظام اس سے کمزور ہوا ہے اور احتسابی عمل کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے حکمرانوں کو اپنا کرپٹ سسٹم پہلے سے زیادہ سمجھ آرہا ہوگا کیونکہ اب وہ خود حکومت میں ہیں۔

تازہ ترین