سندھ کے معروف اور عوامی انقلابی شاعر عبدلکریم گدائی کا یوم پیدائش اور یوم وفات ہرسال جنوری میں منایا جاتا۔ عابدالکریم گدائی کا یوم پیدائش یکم جنوری کو جب کہ یوم وفات 28 جنوری کو منایا جاتا ہے، اس حوالے سے پورا مہینہ عبدالکریم گدائی کی یاد میں مختلف تقریبات میں گزرتا ہے۔ رواں سال سندھی ادبی سنگت ٹھل کی جانب سے سندھ کے ترقی پسند شاعر کے دونوں ایام ایک ساتھ منانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے مطابق جنوری کے پورے مہینے کو جشن ماہ گدائی کے طور پر منانے کے لئے مختلف تقریبات اور پروگرام ترتیب دئیے گئے۔
افتتاحی تقریب کے موقع پر مشاعرہ ،مچ کچہری، ادبی کتابیمیلہ، قبر پر حاضری دے کر فاتحہ خوانی،سگھڑ کچہری، ریلیاں،مشعل بردار جلوس اور دیگر پروگرام شامل ہیں۔ اس پروگرام کے میزبان کامریڈ اصغر سجاگ نفیس سومرو اور دیگر مقامی ادیب ہیں جن کا کہنا ہے کے گدائی کے حوالے سے پورے مہینے میں جو پروگرام اورتقاریب منعقد کی گئی ہیں ان کے لیے محکمہ ثقافت نے بھرپور تعاون کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کے یکم جنوری کو یوم پیدائش اور 28جنوری یوم وفات دونوں یوم جنوری مہینے میں ہونے کے باعث پورے مہینے ماہ گدائی کے نام سے منسوب کرکے پروگرام ترتیب دینے کا مقصد گدائی صاحب کے شخصیت اور شاعری کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرنا ہے ۔پورے مہینے میں ہونے والے پروگرام کے تفصیلات سےقارئین کو آگاہ کرنے سے سے پہلے گدائی صاحب کے شخصیت کا مختصر جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں ۔
عبدالکریم گدائی ضلع جیکب آباد کی تحصیل ٹھل کے قصبہ کریم آباد میں بجار خان لاشاری کے گھر میں یکم جنوری 1901ء میں جنم لیا۔ ان کے والد علاقے کے ایک بڑے زمیندار بہادر خان کھوسہ کے کمدار تھے 1905ءمیں بجار خان لاشاری کو مختیار کارآفس ٹھل میں چپراسی کے طور ملازمت ملی تو انہوں نے اہل خانہ سمیت ٹھل شہر میں سکونت اختیار کرلی ۔
ٹھل شہر میں سکونت سے عبدالکریم گدائی کو تعلیم حاصل کرنے کا کافی معاونت ملی کیوں کہ یہاں اچھے تعلیمی ادارے موجود تھے۔ عبدالکریم گدائی کو مین پرائمری اسکول ٹھل میں داخل کرایاگیاانہوں نے اس اسکول میں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے جیکب آباد بعد ازاں سکھر کا رخ کیا ۔سکھر میں میٹرک کا امتحان دینے سے قبل انہوں نے تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔
غربت اور مالی تنگ دستی کی وجہ سے انہیں یہ دم اٹھانا پڑا تھا۔ 1918ء میں پوسٹ آفس شکارپور میں کلرک بھرتی ہوئے۔ چند سال بعد وہ ملازمت بھی چھوڑ دی۔یکے بعد دیگر ے متعدد سرکاری ملازمتیںملیں اورچھوڑ دیں ۔شکارپور قیام کے دوران جلیا نوالہ باغ سانحے کہ بعد کانگریس میں شمولیت اختیار کی، جس کے بعد انہیں کانگریس کمیٹی ٹھل کا سیکریٹری مقرر کیا گیا۔
1924ء میں وہ اپنے والد کے زمیندار خان بہادر خان کھوسہ کے بیٹے شاہل خان کھوسہ کےاستادمقرر ہوئے۔ ان کو پڑھانے کے دوران قصبہ بہادر پورمیں ان کی ملاقات شکارپور کے معروف ادیب اور شاعر لطف اللہ بدوی سے ہوئی جس کے بعدان کا رجحان شعر وادب کی جانب ہوگیا۔ انہوں نے ایک شاعر کی حیثیت سے اپنا تخلص گدائی رکھا جس کا مطلب فقیر ہے ۔ اس حوالے سے ان کے نواسے جاوید ساگر کا کہنا ہے کہ عبدلکریم گدائی آزاد خیال آدمی تھے، ان کی سوچ یہ تھی کہ ہر انسان دنیا میں فقیر ہے جواپنی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لیے اللہ کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔
اس لیے انہوں نے اپنا تخلص ’’گدائی‘‘ رکھا لیکن بعد میں انہیں اپنے اس فیصلے پر پشیمانی ہوئی۔ وہ ’’گدائی‘‘ سے اپنا تخلص تبدیل کرکے کوئی دوسرا رکھنا چاہتے تھے لیکن ان کے ہم عصر وں نے ان سے کہا کہ پورے سندھ میں آپ گدائی کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں ۔آپ کا زیادہ تر کلام ’’ گدائی ‘‘ کے تخلص سے کہا گیا ہے اس لیے ایسا کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ دوستوں کے سمجھانے بجھانے پر انہوں نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا۔
عبدالکریم گدائی نے تین شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے اولاد نہیں ہوئی، جس کے بعددوسری شادی کی جن سے دو بیٹیاں ہوئیں وہ بھی فوت ہوگئیں جس کے بعد تیسری شادی کی اس سے ان کو اولاد ہوئی جن میں سے ایک بیٹے فتاح عابد بڑے شاعر ادیب اور صحافی کے حیثیت سے معروف ہوئے۔ عبدالکریم گدائی نے 1932ء میں ٹھل میں کپڑوں کی دکان بھی کھو لی جو چند سال بعد بند کر دی گئی۔ 1947ء کے بعد حیدر بخش جتوئی کی تنظیم سندھ ہاری کمیٹی میں شامل ہوگئے۔
وہ اپنی شاعری کے ذریعے کسانوں اور ہاریوںکے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے رہے۔ 1953ءمیںہفت روہ اخبار’’ صبح سندھ‘‘ کے ایڈیٹرمقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے دیگراخبارات ’’انقلاب‘‘، ’’ امروز ‘‘اور’’ فرنٹیئر گزٹ ‘‘ میں بھی ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1960ء میں صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان کی طرف سے وظیفہ مقرر کیا گیا۔
عبدالکریم گدائی کا پہلا مجموعہ کلام’’ پیمانے پر پیمانہ‘‘ 1965ء میں شائع ہوا جسے رائٹرز کلب کی جانب سے انعام کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔ بعد ازاں دوسرے مجموعہ کلام’’ دیس کے درد‘‘،’’ جھگیاں‘‘ اور گلہ بان سندھی میں شائع ہوئے۔ عبدالکریم گدائی نثر نویس بھی تھے انہوں نے ضلع جیکب آباد کی مختصر تاریخ ’’خان گڑھ سے جیکب آباد تک‘‘ سندھی زبان میں دلچسپ انداز میں لکھی۔ عبدالکریم گدائی کی شاعری کا دور طویل عرصے پر محیط ہے۔
ان کی شاعری عوامی انداز کی تھی جس میں مظلوم غریب ہاری مزدوروں کی ترجمانی ہوا کرتی تھی ۔ان کے اشعار لوگوں کے دلوں کو گرما دیتے تھے، خاص طور سے انقلابی شاعری سے سندھ کے لوگ بہت متاثر رہے۔ ان کی زندگی جہد مسلسل تھی اور وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا یہ شعر ان کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے،
؎سفر زندگی کاکٹھن تھا گدائی، بہر طور گزرا گزار دیا
وہ کٹھن حالات سے گھبرانے والے نہیں تھے۔ اگران کی انقلابی شاعری کاموازنہ کیا جائے تو ان کی شاعری حبیب جالب اور فیض احمد فیض سے کم نہیں تھی۔ عبداکریم گدائی 28 جنوری 1978ءمیں 77سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ ان کی تدفین جیکب آباد میں جنرل جان جیکب قبرستان میں کی گئی ۔عبدالکریم گدائی کی شاعر اور صحافی کی حیثیت سے فقید المثال خدمات ہیں، جنہیں زیادہ سے زیادہ اجاگرکرنے کی ضرورت تھی لیکن ان کی خدمات کو اس طرح سے پیش نہیں کیا گیا۔
جس کے وہ مستحق تھے۔ اس حوالے سے سندھی ادبی سنگت قابل تعریف ہے جس نے اس عظیم شخصیت کے حوالے سے پورا ایک مہینہ تقریبات منعقد کرکے نوجوان نسل کو ان سے کی انقلابی شخصیت سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے ۔ سندھی ادبی سنگت ٹھل کی جانب سے جشن گدائی کا افتتاح یکم جنوری سے پریس کلب میں عبدالکریم گدائی کی 117ویں سالگرہ کا کیک کاٹ کر کیا گیا۔
بعد ازاں ایک تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت نامور شاعر ادل سومرونے کی جبکہ مہمان خاص گدائی پر پی ایچ ڈی کرنے والے محقق ڈاکٹر غلام نبی سدہایو تھے ۔ اعزاری مہمانوں میں اردو اترادی ،ایاز گل،مختیار ملک ،ممتاز بخاری،فہیم نوناری،محبوب سومرو،پروفیسر برکت مہر اور لطیف نوناری سمیت سندھ بھر کے ادیب شاعروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان تقریبات کےموقع پرٹھل پریس کلب میں پانچ روزہ کتب میلہ کا انعقاد کیا گیا جس میں ادبی ،سیاسی ،مذہبی ،نصابی،تاریخی کتب سمیت مختلف موضوعات پر کتابیں رکھی گئی تھیں۔
میلے کا افتتاح ٹھل کے ارکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سہراب سرکی نےکیا۔ \3جنوری کو ٹھل کے گدائی ہال میں اولڈ ریڈرز فورم کی جانب سے ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس کی صدارت جوش برڑو نے کی۔ گدائی کی شاعری کے حوالے سے ٹائون کمیٹی میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت سندھی ادبی سنگت کے مرکزی سیکریٹری احمد سولنگی نے کی جس میں سندھ بھر کے شعراء نے اپنے کلام میں گدائی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
علاوہ ازیں مشعل بردار ریلی بھی نکالی گئی سندھی ادبی سنگت کے ایک وفد میں جس میں ضلع کے ادیب شعرا شامل تھے ۔ بعد ازاں گدائی کی قبر پر پھولوں کی چادرچڑھا کر فاتحہ خوانی کی گئی۔آخر میں ڈاکٹر غلام نبی سدہایو،نفیس سومرو اور دیگر ادبی و سماجی شخصیات کی قیاد ت میں پریس کلب تک ریلی نکالی گئی۔ گدائی کے حوالے سے تقریبات کا سلسلہ جاری ہے جو 31 جنوری تک جاری رہیں گی۔