• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نسرین جبیں، پشاور

( تصاویر: فیاض عزیز)

اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کوئی شئے بے کار نہیں، البتہ یہ الگ بات ہے کہ انسان بسا اوقات اِن معاملات کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔کئی اقسام کے جانور انسانوں کی خوراک، لباس اور دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں، کچھ مال برداری کے کام آتے ہیں، تو بہت سے قدرت کی حسین تخلیق ہونے کے ناتے اپنی حرکات و سکنات اور بولیوں سے ہمیں محظوظ کرتے ہیں۔ تاہم، انسان کو’’ اشرف المخلوقات‘‘ کے درجے سے نوازا گیا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں بہت سی عادات یک ساں ہیں، لیکن انسانی عقل اور سمجھ بُوجھ اُسے اُن سب سے بالاتر کر دیتی ہے۔ 

یہی عقل اور احساس انسانوں کو دیگر مخلوق سے اچھے سلوک کا شعور دیتا ہے، لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے جانوروں کے ساتھ رویّہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ بہت سے افراد نہ صرف عام جانوروں، بلکہ پالتو جانوروں کو بھی بلاوجہ تنگ کرنے اور تکلیف دینے میں خوشی اور تفریح محسوس کرتے ہیں، جب کہ ہم بیمار یا کسی پریشانی میں مبتلا جانور کا دُکھ محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں اس اذیّت سے نجات دِلانے کی کوشش کرتے ہیں۔دوسری طرف، معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں(گو کہ کم ہیں) جو جانوروںکے دُکھ، درد، خوشی اور دیگر احساسات کو نہ صرف سمجھتے ہیں، بلکہ اُنھیں خوش باش، صحت مند رکھنے کی کوشش کرنا اپنی انسانی ذمّے داری خیال کرتے ہیں۔ اُن ہی میں خیبر پختون خوا کے دارالحکومت، پشاور سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی زیبا مسعود اور جاوید خان بھی شامل ہیں۔ 

وہ چالیس سال سے کیلی فورنیا، امریکا میں اپنے بچّوں کے ساتھ مقیم تھے، لیکن چند سال قبل زیبا اپنی والدہ کی تیمارداری کے لیے پاکستان آئیں، تو اُنہوں نے دیکھا کہ یہاں کتّوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویّہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ کہیں اُنہیں مارا جا رہا ہے، تو کہیں بچّے اور بڑے اُنہیں تنگ کرتے، پتھر مارتے اور زخمی کرتے ہیں اور گلیوں، سڑکوں، بازاروں میں گھومتے آوارہ کتّے انسانوں کو کاٹ کر اپنا تحفّظ کر رہے ہیں، جس سے لوگ زخمی ہونے کے ساتھ، بعض اوقات موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں، لیکن کوئی اِس صُورتِ حال کا سدّباب نہیں کرتا اور کتّوں سے متعلق تمام مسائل کا حل محض اُنھیں مار دینا ہی سمجھا جاتا ہے۔یہ تکلیف دہ مناظر دیکھ کر اُن کے کتّوں سے محبّت کے جذبات کچھ کر گزرنے کا رُوپ دھار گئے۔ وہ آگے بڑھیں اور اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ پشاور میں کتّوں کے تحفّظ کے لیے ایک’’ اینیمل شیلٹر‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔

زیبا پشاور سے گریجویشن کے بعد شادی کر کے بعد امریکا منتقل ہوئیں، جہاں چالیس سال گزارے۔ اُن کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، جو سب کیلی فورنیا ہی میں مقیم ہیں۔ شوہر پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور آج کل پشاور میں کتّوں کے لیے قائم’’لکی اینیمل شیلٹر‘‘ کا نظم و نسق سنبھالنے میں اہلیہ کی مدد کر رہے ہیں۔ زیبا مسعود نے ایک سوال کے جواب میں بتایا’’ جب مَیں نے دیکھا کہ یہاں جانوروں، خصوصاً کتّوں کی حالت بہت خراب ہے، لوگ اُنہیں مارتے اور زخمی کردیتے ہیں۔ 

دوسری طرف، سڑکوں اور گاڑیوں کے نیچے کتّوں کے گینگ کے گینگ بیٹھے نظر آتے ہیں، جو انسانوں کے لیے خطرہ ہیں، ویکسی نیشن کا کوئی انتظام نہیں، تو ہم نے سوچا کہ انسانوں اور جانوروں، دونوں کو تحفّظ فراہم کیا جانا چاہیے، لہٰذا کام کا آغاز کچھ اِس طرح کیا کہ سڑکوں اور گلیوں میں آوارہ پِھرنے والے کتّوں کو سڑکوں ہی پر کھانا وغیرہ دینا شروع کردیا۔ نیز، بہت سے بیمار کتّوں کا علاج کیا اور صحت یابی پر اُنہیں دوبارہ سڑکوں پر چھوڑ دیا۔

بعض اوقات لوگ اُنہیں ایڈاپٹ بھی کر لیتے، مگر ایسا بہت کم ہوا، کیوں کہ پشاور اور باقی خیبر پختون خوا میں کتّوں کو گود لینے کا رواج نہیں ہے۔ بعدازاں، ہم نے پشاور میں کتّوں کو رکھنے، اُن کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کے لیے کرائے پر ایک بڑی عمارت لی۔ ہمارا مقصد صرف اللہ کی مخلوق کی خدمت ہے۔ اِس دھرتی نے ہمیں بہت دیا ہے، تو ہم بھی اِسے کچھ لَوٹانا چاہتے ہیں، اسی لیے امریکا سے واپس آکر یہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔‘‘زیبا نے موجودہ صُورتِ حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ پاکستان میں جانوروں کے لیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا کوئی قابلِ اعتماد ڈیٹا بھی موجود نہیں۔ کتّے بیمار یا زخمی ہو جائیں، تو علاج کا کوئی طریقۂ کار نہیں۔ جانوروں کی لیبارٹریز تو ناپید ہیں اور اگر کہیں ہیں بھی، تو ضروری آلات سے محروم ہیں۔ 

یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کتّوں سے انسانوں کو اور خود کتّوں کو تحفّظ فراہم کرنے کے لیے سرکاری سطح پر قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے جا رہے۔‘‘ اِس ضمن میں اُنھوں نے تجویز دی کہ’’اگر کتّوں سے حفاظت کے لیے ٹیکے لگوا لیے جائیں، تو ہم بہت حد تک اُن سے پھیلنے والی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں، البتہ جِلدی امراض کا علاج ذرا مختلف ہے۔ کتّوں کے لیے مخصوص حفاظتی ٹیکہ 1000 سے 1500 روپے تک میں آتا ہے، جو تین سال تک ہر سال ایک بار لگایا جاتا ہے۔ اس سے کتّوں کی بیماریاں انسانوں تک نہیں پہنچتیں۔ جو لوگ گھروں میں کتّے رکھتے ہیں، وہ اُنہیں حفاظتی ٹیکے نہ لگوا کر محض اپنے1500روپے بچاتے ہیں، لیکن بعد میں100گُنا زیادہ خرچہ کر کے اپنا علاج کرواتے پِھرتے ہیں۔ 

اگر سرکاری اور گھریلو سطح پر تمام کتّوں کی ویکسی نیشن کروا دی جائے، تو تمام انسان اُن کے خطرناک اثرات سے محفوظ ہو جائیں۔‘‘ زیبا نے اپنی خدمات کے حوالے سے بتایا’’ ہمارے قائم کردہ’’ لکی اینیمل شیلٹر‘‘ میں ایک سو سے زائد مختلف نسلوں کے ایسے کتّے ہیں، جو سڑکوں اور بازاروں میں بیمار یا زخمی حالت میں تھے۔ اُن کا علاج کیا گیا اور اب وہ صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ 

شیلٹر ہوم میں چھے لوگ کام کرتے ہیں اور وہاں کتّوں کے علاج کے لیے کلینک بھی ہے، جس میں باقاعدہ تربیت یافتہ ڈاکٹرز موجود ہیں۔ نیز، تمام ضروری آلات، ادویہ اور دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ جن بیمار کتّوں کا علاج ہم نہ کر سکیں، اُنہیں اسلام آباد بھیج دیا جاتا ہے۔ ‘‘اخراجات سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ’’ ایک کتّے پر پچیس سے تیس ڈالرز ماہانہ خرچہ آتا ہے۔ روزانہ چار سے پانچ فون کالز آتی ہیں کہ ہمارے علاقے میں کتّے بہت زیادہ ہیں، آکر لے جائیں، نہیں تو ہم اُنہیں مار دیں گے۔ یہ سُن کر بہت دُکھ ہوتا ہے، لیکن ہم بے بس ہیں،ہمارے پاس بھی مزید گنجائش نہیں رہی ۔ ہم خود اپنے خرچے پر، لوگوں کے فنڈز سے ویکسین خرید رہے ہیں، سرکاری طور پر کچھ نہیں مل رہا۔ متعلقہ محکمے والے کہتے ہیں، ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ 

ہاں البتہ لاوارث، بیمار اور زخمی جانوروں کی دیکھ بھال کے مِشن میں پاکستانی اور غیر مُلکی دوست ہماری مدد کر رہے ہیں۔‘‘اپنے مستقبل کے منصوبوں سے متعلق اُنھوں نے بتایا’’ہم نے لوگوں کو کتّوں کے نقصانات سے محفوظ رکھنے اور کتّوں کو لوگوں کے منفی رویّوں سے محفوظ رکھنے کے لیے طویل المدّتی منصوبہ بنایا ہے، جس کے تحت کتّوں کو بین الاقوامی طریقے سے ویکسین دیں گے اور ان کی جِلد میں ٹیگ لگا ئیں گے۔ جب اس چِپ کو اسکین کیا جائے گا، تو سارا ڈیٹا سامنے آ جائے گا۔ اس منصوبے کا پشاور سے آغاز کیا جا رہا ہے۔‘‘اس موقعے پر جاوید خان نے کہا کہ’’ ہم کتّوں کی تعداد کم کرنے کے لیے اُنہیں مارنے کی بجائے اُن کی نسل بڑھنے کے عمل کو روک رہے ہیں۔ کتّوں کی افزائشِ نسل کی رفتار انتہائی تیز ہے۔ ہر چھے ماہ بعد ایک مادّہ سے دس بچّے جنم لیتے ہیں۔ 

ہم کتّوں کا آپریشن کرتے ہیں تاکہ مزید افزائش نہ ہو سکے اور وہ اپنی زندگی طبعی طور پر جی لیں۔ اُنہیں زہر یا گولی سے نہ مارا جائے۔‘‘جاوید خان نے کہا کہ’’ اگر کتّوں کو حفاظتی انجیکشن لگا دیئے جائیں، تو اگر وہ کسی انسان کو کاٹ بھی لیں، تب بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ کتّے کے جراثیم انسان میں منتقل نہیں ہوتے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ویکسی نیشن کا رواج نہیں ہے۔ سرکاری اور نجی طور پر کتّوں کو ٹیکے لگانے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘زیبا مسعود اور جاوید خان نے مطالبہ کیا کہ’’ حکومت جانوروں کے تحفّظ اور علاج معالجے کے لیے تمام سہولتوں سے آراستہ لیبز قائم کرے۔ نیز، بنجر زمینیں بوڑھے گدھوں اور گھوڑوں کے لیے وقف کی جائیں۔ علاوہ ازیں، کتّوں میں حفاظتی ٹیکوں کا عمل مکمل کیا جائے اور مارنے کی بجائے اُن کی افزائشِ نسل کا سلسلہ روکا جائے تاکہ وہ اپنی طبعی زندگی پوری کر سکیں۔‘‘

تازہ ترین