اسلام آباد(جنگ رپورٹر) عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور متعدد وکلاء تنظیموں کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کیخلاف دائر کی گئی آئینی د رخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیس میں بدنیتی عیاں تھی ،کیونکہ سابق چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس کا فائدہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو ہونا تھا، کیا صدر مملکت ایڈوائس سے ہٹ کر اختیار ات کااستعمال کر سکتے ہیں؟ جبکہ سندھ ھائی کورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نے کہا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے جمع شدہ مواد پر کسی جج کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی ہے ، صدر مملکت عارف علوی نے آرڈیننسز کی فیکٹری لگا رکھی ہے،کیا ایسے شخص سے ضمیر کے مطابق فیصلے کی امید لگائی جا سکتی ہے؟جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ بنچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کی تو رشید اے رضوی نے اپنے سابق دلا ئل کو آگے بڑھاتے ہوئے موقف اختیار کیاکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیخلاف صرف صدر مملکت اور سپریم جوڈیشل کونسل ہی تحقیقات کر سکتی ہے، صدر اور کونسل کے علاوہ اگرکوئی ادارہ بھی انکوائری کرے تو وہ غیرقانونی تصور کی جائے گی ،اور غیرقانونی طریقے سے حاصل دستاویزات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،اعلیٰ عدلیہ اس نکتے پر کسٹمز اور اِنکم ٹیکس کے مقدمات میں اصول وضع کر چکی ہے، اثاثہ جات ریکوری یونٹ غیرقانونی باڈی ہے،غیرقانو نی باڈی کے غیر قانونی طریقے سے جمع شدہ مواد پر کسی جج کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی نہیں کی جاسکتی ہے اورنہ ہی اثاثہ جات ریکوری یونٹ ازخود اختیار ات حاصل کر سکتا ہے،اگریہی صورتحال رہی تو کل کسی تھانے کا ایس ایچ او بھی ججوں کیخلاف کارروائی شروع کر دے گا۔