• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر میں ٹھگوں کی تاریخ تقریباً چودھویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔ جب پیشہ ور ٹھگوں نے انسانی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھایا اور ’’خوشبو‘‘ والا رومال سنگھا کر باقاعدہ طور پر سادہ لوح لوگوں کو نت نئے جھانسے دے کر لوٹنا شروع کیا۔ ٹھگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ظاہری طور پر وارداتیے نہیں لگتے۔ اُن کی وضع قطع، شکل و صورت سے کوئی پہچان بھی نہیں سکتا کہ وہ کب اور کس انداز میں واردات کرنے والے ہیں۔ ٹھگ کبھی بھی کسی منظم گروہ کی شکل میں نظر نہیں آتے۔ زیادہ تر اپنی انفرادی، منفی، ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر واردات کرنا پسند کرتے ہیں۔ حالات و مشترکہ مفادات کے تحت مخصوص علاقے کے ٹھگ کبھی کبھی چار پانچ رکنی گروہ کی شکل میں بھی واردات کے لیے ایکا کر لیتے ہیں۔ گینگسٹرز اور ٹھگوں میں یہی فرق ہے کہ گینگسٹرز باقاعدہ منظم گروہ کی شکل میں قتل و غارت، بھتہ خوری، قبضہ مافیا اور اِن جیسے براہِ راست نظر آنے والے بظاہر سنگین جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں جبکہ ٹھگوں کا طریقۂ واردات گینگسٹرز کے مقابلے میں بڑا بےضرر اور غیر محسوس ہوتا ہے۔ اُن کی واردات کا انسان کو اُسی وقت ہی پتا چلتا ہے جب وہ اپنا مال و اسباب لٹا چکا ہوتا ہے۔ ٹھگوں کی وارداتیں زیادہ ترکمال ذہانت پر مبنی ہوتی ہیں۔ وہ کبھی مسیحا کا روپ دھار لیتے ہیں تو کبھی پیر فقیر کا بہروپ دھار کر معصوم عوام کی جیبیں صاف کر جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ہم سفر بن کر آپ پر اپنی گفتگو، چرب زبانی کا ایک ایسا سحر طاری کرتے ہیں کہ آپ سرِ راہِ میٹھا لڈو کھا کر یا آبِ زم زم کے نام پر نشہ آور مشروب پی کر لٹ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ٹھگ آپ کی حسِ مزاح کو ایسا چھیڑتے ہیں کہ جیسا جوکر اور آپ کی عقل کو ایسا منجمد کرتے ہیں کہ ہنسی مذاق میں ہی آپ کا کام تمام ہو جائے۔ بنارس یوں تو بھارت کا وہ قدیم ترین شہر ہے جو ہندوئوں کو ہمیشہ مذہبی و تاریخی حوالوں سے عزیز ترین رہا ہے۔ بنارس کی وجۂ شہرت جہاں اُس کی تاریخ ہے وہاں ریشم کا کاروبار، ہاتھی دانت سے بنی قیمتی اشیا، مجسموں، خوشبوئوں کے حوالوں سے بھی اس کی ایک شناخت ہے۔ بنارس ہندو دیوتا شیوا سے جڑا ایک ایسا شہر ہے جو گنگا کنارے آباد ہے اور جہاں ہندو گنگا اشنان کرکے اپنے گناہ دھلوانے آتے ہیں اور یہیں سے ٹھگوں کی ٹھگی شروع ہوتی ہے جب اُنہوں نے ہندو یاتریوں سے پیسے اینٹھنے کے عوض اُنہیں پوتر (پاک صاف) کرنے اور سورگ پدھارنے (جنت میں جانے) کا جھانسہ دے کر لوٹنا شروع کیا۔ انہی بنارسی ٹھگوں کی ایک نسل نے تقسیمِ ہند کے بعد اپنا ٹھکانہ بدلا اور پاکستان منتقل ہو گئی اور نسل در نسل یہ پیشہ ور بنارسی ٹھگ غریب عوام کو خوشبو والا رومال سنگھا کر لوٹنے لگے۔ اِن چند بنارسی ٹھگوں نے پہلے ہندوستان سے ہجرت کرکے ہندوئوں اور سکھوں کے ہاتھوں عزتیں اور جائیدادیں لٹا کر آنے والے غریبوں کو اراضی کلیموں کے نام پر لوٹا اور بڑی بڑی جاگیروں پر قبضے کئے اور ان جاگیروں پر اپنی سلطنتیں قائم کیں۔یہ وہی بنارسی ٹھگ ہیں جو وسیع و عریض زرعی رقبے پر اجناس کے کاروبار سے منسلک ہوئے اور اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ آج یہی بنارسی ٹھگ پورے ملک میں ایک مافیا کی شکل میں آٹا، دال، چینی، پٹرول، بجلی، گیس، ادویات، تعلیم پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ فواد چوہدری تو کہتے ہیں صرف پانچ سو افراد کو سرِ عام لٹکا دیا جائے تو عام آدمی کی زندگی آسان ہو جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو تین درجن بنارسی ٹھگ خاندانوں کی گردنیں ہی ماپی جائیں تو پاکستان کے غریب سکھ کا سانس لینے کے قابل ہو جائیں۔ یہ شوگر اور آٹا مافیا کون ہے؟ یہ پراپرٹی مافیا کیا ہے؟ گنتی کے چند نام۔ یہ پولٹری مافیا کیا ہے؟ پنجاب کے صرف تین چار خاندان۔ نیپرا کیا ہے؟ سرکاری مافیا کا مضبوط کارٹیل۔ تمباکو کا کاروبار کس کا ہے؟ خیبر پختوانخوا کے چند خاندان۔ آپ حیران ہو جائیں گے کہ اِن بنارسی ٹھگوںکی لڑی ایک ہی ہے جو نسل در نسل اپنی جیبیں بھر رہی ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ ان بنارسی ٹھگوں نے پُورے پاکستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ان کے مفادات ایک ہیں۔ واردات کے دوران یہ بنارسی ٹھگ اپنا گیٹ اپ تھوڑا بدل لیتے ہیں کبھی اُدھر تو کبھی اِدھر اور سادہ لوح عوام ہر بار اِن کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ اِنہیں لگام ڈالنے والا کوئی نہیں۔ مفادِ عامہ کے تحت اگر ایک بار عوام اِن بنارسی ٹھگوں کے خلاف ایکا کرلیں، اُن کی نسلوں کا بائیکاٹ کردیںکیونکہ جنجال پورہ کے بنارسی ٹھگ ہمارا نصیب نہیں بدل سکتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین