• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس کا نام لیلیٰ تھا، کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں اکیلے داخل ہوتے ہی سیکورٹی حکام نے اُسے روک لیا۔ اُس روز ہوٹل میں صدرِ پاکستان ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لارہے تھے لہٰذا سیکورٹی بھی زیادہ سخت تھی جبکہ لیلیٰ بھی اس طرح روکے جانے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھی، اس نے مزاحمت کی کوشش کی، جس سے بھگڈر مچی اور سیکورٹی حکام نے اسے حراست میں لیکر ایک کمرے میں پوچھ گچھ کے لیے منتقل کردیا۔ اس سے پوچھ گچھ شروع ہوئی، میں بھی چونکہ ہوٹل میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شریک تھا لہٰذا یہ تمام منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا تھا۔ اپنی صحافتی تشنہ طلبی مٹانے کے لیے سیکورٹی کے کمرے جہاں خاتون کو رکھا گیا تھا وہاں جا پہنچا۔ معاملہ زیادہ حساس نہیں تھا اس لئے آسانی سے کمرے میں داخل ہونے اور خاتون سے ہونے والی بات چیت سننے کی اجازت بھی مل گئی۔ خاتون کی عمر پچیس سے چھبیس سال کے لگ بھگ تھی، سانولا رنگ، چہرے پر شوخ رنگ سے گہرا میک اپ کیا ہوا تھا، اس نے عبایا مذہبی ضرورت کے بجائے صرف شناخت چھپانے کے لیے پہنا ہوا تھا۔ اس نے اپنا نام لیلیٰ بتایا جو اس کی شخصیت کے برخلاف ہی تھا تاہم اس کے چہرے اور شخصیت میں بلا کا اعتماد تھا۔ سیکورٹی حکام نے اس سے شناختی کارڈ طلب کیا جو اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ اپنے علاقے، والدین کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے گریزاں تھی۔ ہوٹل میں آنے کا مقصد اس نے کسی سے ملاقات بتایا لیکن کس سے، یہ بتانے سے بھی وہ انکار کر رہی تھی۔ ہوٹل کے سیکورٹی حکام نے جب اسے بتایا کہ آج صدرِ پاکستان ہوٹل میں ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لارہے ہیں اور جب تک وہ چلے نہیں جاتے لیلیٰ کو ہوٹل سے جانے نہیں دیا جائے گا اور اگر اس نے اپنی اصل شناخت ظاہر نہیں کی تو شام کو اسے پولیس کے حوالے کردیا جائے گا۔ ہوٹل سیکورٹی اور پولیس کا دبائو جب زیادہ بڑھا تو لیلیٰ نے زبان کھولی۔ لیلیٰ کے مطابق وہ شہر کے مضافاتی علاقے کی رہنے والی ہے، والد انتقال کر گئے ہیں، والدہ ضعیف اور بیمار ہیں، گھر میں دو چھوٹی بہنیں اور بھائی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ لیلیٰ کے مطابق جب اس کے والد کا انتقال ہوا تو اس نے انٹر کا امتحان پاس کیا تھا، شدید گھریلو مسائل کے سبب نوکری کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا تو معاشرے میں ہر طرف انسان نما بھیڑیوں سے ہی ملاقات ہوئی جنہوں نے ہر مدد کے بدلے اس کا استحصال کرنے کی کوشش کی۔ بڑی مشکل سے ایک فیکٹری میں پندرہ ہزار ماہوار کی ملازمت ملی تو سوچا گھریلو مسائل حل ہو جائیں گے لیکن یہ اندازہ بالکل نہ تھا کہ پندرہ ہزار کے حصول کے لیے پورا مہینہ نوکری بچانے سے زیادہ اپنی عزت بچانے کی جدو جہد کرنا پڑے گی۔ فیکٹری جانے کے لیے ملازم لڑکیوں کو گھر سے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کی گئی تھی جس کے لیے وین صبح گھر سے لیتی اور شام کو گھر چھوڑ دیا کرتی تھی لیکن وین ڈرائیور کا رویہ ایسا تھا جیسے وہ تمام لڑکیوں کو پک اینڈ ڈراپ کرکے احسان کررہا ہو اور اس احسان کے بدلے وہ لڑکیوں سے تعاون کرنے کو کہتا۔ وین ڈرائیور نے کئی دفعہ لیلیٰ کو چھٹی والے دن اپنے ساتھ گھومنے پھرنے کی دعوت دی وہ اکثر تعاون کرنے کا کہتا لیکن جس طرح کا تعاون وہ چاہتا تھا لیلیٰ اس کے لیے ہر گز تیار نہ تھی۔ ڈرائیور سے جان چھڑائی تو فیکٹری میں سپروائزر نے فری ہونے کی کوشش کی، جب اسے انکار کیا تو اس نے کام میں سختی شروع کر دی، وجہ پوچھی تو اس نے بھی تعاون مانگا، منع کرنے پردرست کام میں بھی کیڑے نکالنے لگتا، ابھی سپروائزر سے جان چھڑانا مشکل ہورہی تھی کہ فیکٹری مالک نے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش شروع کردی، کئی دفعہ دفتر کی وین چھڑوا کر خود گھر چھوڑنے چلا جاتا، راستے میں وہ بھی تعاون کا طلبگار رہتا، انکار پر ملازمت سے فارغ کرنے کی دھمکی دیتا۔ والدہ کو بتایا تو والدہ نے امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ بات کرکے دیکھ لو شاید شادی کرنا چاہ رہا ہو، وہ والدہ سے مزید کچھ نہ کہہ سکی اور اگلے روز فیکٹری مالک سے پوچھ بیٹھی کہ اگر وہ اس سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ پوری طرح تعاون کے لیے تیار ہے۔ فیکٹری مالک نے اسے غور سے دیکھا، ہلکا سا مسکرایا اور جواب دیا کہ وہ دو بیویوں کا شوہر اور چھ عدد بچوں کا باپ ہے۔ فیکٹری مالک کا جواب سن کر لیلیٰ کو اندازہ ہو گیا کہ اب نوکری بچانے کے لیے تعاون ناگزیر تھا اور پھر اس نے اپنے گھر والوں کی خاطر عزت کا سوداکر لیا۔ جتنا پیسہ وہ مہینے بھر نوکری کرکے عزت بچا کر کمایا کرتی تھی اب وہ صرف دو دن میںاُتناکمانے لگی تھی، اب اس نے نوکری چھوڑ دی تھی اور بہترین گزارا کررہی تھی اور آج وہ ہوٹل میں بھی کسی کے ساتھ ملنے ہی آئی تھی اور پکڑی گئی۔ سیکورٹی حکام نے تمام صورتحال سن کر اسے اپنے کسی عزیز کو ہوٹل بلا کر، شناختی کارڈ جمع کرا کر ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ لیلیٰ نے ایک فون کیا، کچھ ہی دیر بعد ایک گاڑی ہوٹل کے باہر آکر کھڑی ہوئی، لیلی اور اس کی ضمانت دینے والے کا شناختی کارڈ جمع ہوا اور وہ ہوٹل سے روانہ ہو گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہمارا معاشرہ کتنا پستی میں گر گیا ہے، ہمارے ہاں لوگ ایک شریف، غریب اور مجبور لڑکی کا کس طرح سے استحصال کرتے ہیں اور میرے پاس تم ہو جیسے ڈراموں کو دیکھنے کے ریکارڈ توڑ کر پھر اسے برا بھلا بھی کہتے ہیں۔

تازہ ترین