• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہماری تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج تک کوئی سیاسی پارٹی بھی برسراقتدار آنے کے بعد اپنے منشور اور عوام کو دکھائے گئے خوابوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ سیاسی لیڈران صرف ووٹ لینے کیلئے بہت سے خواب دکھاتے ہیں جن میں کچھ خواب غیرحقیقی اور ناقابلِ عمل ہوتے ہیں لیکن اکثر اوقات وہ اُن وعدوں کو بھی پورا نہیں کرتے جنہیں پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس تاریخی سچائی یا صورتحال کی بہت سی وجوہ ہیں جن میں قابلِ ذکر چند ایک ہیں، اوّل، لیڈران میں صلاحیتوں اور بصیرت کی کمی، دوم، اقتدار کے حصول کے بعد ترجیحات میں تبدیلی، سوم، وسائل کا صحیح استعمال کرنے کے بجائے وسائل کا ضیاع، چہارم، کرپشن کا پھیلتا ہوا ناسور، پنجم، سستی شہرت اور مقبولیت کی ہوس، ششم، پارٹی کا دبائو اور منتخب اراکین کی خواہشات و سفارشات کا کردار۔

میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اقتدار میں آنے کے بعد نہ ہی صرف پارٹی منشور کو بھول جاتے ہیں بلکہ عوام سے جلسوں میں کیے گئے وعدے بھی پسِ پشت ڈال دیتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے منشور محض خانہ پُری کیلئے اور وعدے محض ووٹ حاصل کرنے کیلئے کیے ہوتے ہیں۔ اس سیاسی و انتخابی کھیل میں خلوص کم اور ’’سیاست‘‘ زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیاست کا مفہوم بدل چکا ہے اور عام طور پر لوگ سیاست کے لفظ کو فریب اور جھوٹ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ قائداعظم نے اپنی بےشمار تقاریر میں پاکستان کو ایک اسلامی، فلاحی، جمہوری اور روشن خیال ملک بنانے کے وعدے کیے تھے۔ وہ انسانی مساوات، قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف، معاشرتی برابری، جاگیرداری کے خاتمے، اقلیتوں کے حقوق اور معاشی ترقی و خوشحالی پر زور دیتے تھے۔ اُن کی گیارہ اگست کی تقریر کرپشن، سفارش، ذخیرہ اندوزی، فرقہ واریت اور منافع خوری وغیرہ کے خلاف جہاد اور اقلیتوں کو برابر حقوق دینے کا منشور تھی۔ کچھ بزعم خود روشن خیال دانشور اس تقریر پر سیکولرازم کا رنگ چڑھاتے ہیں جبکہ دراصل یہ ساری باتیں اسلامی نظام کے نمایاں خطوط ہیں جس کی بےشمار مثالیں خلافتِ راشدہ کے دور میں ملتی ہیں۔ دین سے بیزار اور شریعت کو فدائیوں کا ہتھیار سمجھنے والے لکھاری قائداعظم کے تصورِ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے بحیثیت گورنر جنرل پاکستان فروری 1948ءمیں عید میلاد النبیﷺ کے مبارک موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ لوگ شرارت کر رہے ہیں کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ نہیں ہو گا۔ پاکستان میں شریعت نافذ کی جائیگی۔ پھر قائداعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ تحقیق کے ذریعے مغربی نظامِ معیشت کے مقابلے میں اسلامی نظامِ معیشت کا تصور پیش کیا جائے۔ قائداعظم کی شریعت سے مراد ہرگز تھیوکریسی، ملائیت اور مذہبی ریاست نہیں تھی، اس سے مراد ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست تھی۔ تاریخ ہے کہ مذہب کو ہر دور میں مختلف گروہ اپنے مقاصد اور بعض اوقات فتنہ پروری کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بہت بڑی اکثریت نہ کبھی گمراہ ہوئی اور نہ ہی مذہب سے بدظن ہوئی۔ ہٹلر نے جمہوریت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا اور بدترین آمریت مسلط کر دی لیکن جمہوریت نواز جمہوریت سے بدظن نہ ہوئے۔ بہت سے ممالک میں جمہوریتیں آمریتوں کا لبادہ اوڑھتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود جمہوریت پر یقین قائم ہے۔ اگر بعض گمراہ گروہ مذہب اور شریعت کے نام پر گمراہی پھیلاتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم مذہب سے بدظن ہو جائیں۔ مت بھولیں کہ اقبال نے قائداعظم کے نام خط میں یہ واضح کیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے معاشی اور دیگر مسائل کا حل شریعت کے نفاذ میں پنہاں ہے۔ اس سے ہرگز مراد ملائیت نہیں تھی بلکہ اس سے مراد اسلامی ریاست کا فلاحی پہلو تھا۔

قائداعظم کو اپنے تصورِ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے کا وقت نہ ملا، اگرچہ انہوں نے اپنی بےشمار تقاریر میں اس تصور کے خطوط بار بار نمایاں کئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھا، مہاجرین کی آباد کاری سے لے کر خالی خزانہ اور مالی وسائل کے قحط تک بےشمار مسائل کا سامنا تھا۔ پھر مارچ کے بعد قائداعظم علیل ہو گئے اور ستمبر 1948میں رحلت فرما گئے لیکن بحیثیت ِ گورنر جنرل پاکستان انہوں نے ایک سال کے دوران جس طرح قومی خزانے کے تقدس، پائی پائی کا حساب، سادگی، قانون کی حکمرانی، سفارش و اقربا پروری کی نفی، کرپشن کے خاتمے، اقلیتوں کے حقوق اور ملکی وقار کی مثالیں قائم کیں اُن کی ہماری تاریخ میں دوسری کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بدقسمتی سے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملکی اقتدار پر بیورو کریسی، جاگیردار اور خود غرض سیاستدان حاوی ہو گئے اور قائداعظم کے منشور کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ اس کے باوجود پاکستان کا مالی و معاشی اور دفاعی حوالوں سے مضبوط ملک بن کر ابھرنا، 1956میں تاخیر سے دستور بنا لینا بہرحال ایسے کارنامے تھے جن کا کریڈٹ اُس دورِ حکومت کو ملنا چاہئے۔ عجیب بات ہے کہ اُس دور حکومت میں حکمرانوں کا دامن مالی کرپشن، کمیشن خوری، اقربا پروری، غیر ممالک میں اثاثوں اور قومی خزانے کے بےدریغ ضیاع جیسے الزامات سے تقریباً صاف رہا۔ مختصر یہ کہ اقتدار میں آنے والی سیاسی و منتخب حکومتوں نے کبھی بھی اپنے انتخابی منشور اور عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ تعلیم و صحت کے حوالے سے کیے گئے وعدے ہمارے حکمرانوں کی کبھی بھی ترجیح نہ تھے اور نہ ہی اُن میں ان شعبوں کی اہمیت، انسانی وسائل کی ترقی وغیرہ کا شعور تک موجود تھا۔ رہا معاشی خوشحالی، غربت و جہالت کا خاتمہ اور کرپشن کا انسداد تو ان وعدوں کا اب تک جو حشر ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، البتہ کرپشن دن دُگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہی ہے۔ حکمران طبقے امیر اور ملک و عوام غریب ہوتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ نجانے کبھی یہ سلسلہ ختم ہو گا یا نہیں۔ جمہوریت کے حُسن کے نام پر ہم کب تک وعدوں کے فریب کا شکار رہیں گے؟

تازہ ترین