چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے تجاوزات کے خاتمے اور سرکلر ریلوے کی بحالی کیس میں وزیراعلیٰ سندھ، سیکرٹری ریلوے، میئر اور کمشنر کراچی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حکومت چاہتی ہی نہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے چلے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سمیت مختلف کیسز کی سماعت کی۔
اس موقع پر صوبائی وزیر سعید غنی، میئر کراچی وسیم اختر ، کمشنر کراچی، کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن، چیف سیکریرٹری سندھ ممتاز علی شاہ بھی عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کیس کی سماعت کے دوران سوال کیا کہ سرکلر اور لوکل ٹرین کی بحالی سے متعلق حکم پر عمل درآمد ہوا یا نہیں؟
کمشنر کراچی نے عدالت میں بتایا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں، جو بھی ہے ریلوے کے پاس ہے، اس پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ایک دوسرے پر الزام لگائیں تو کچھ نہیں ہوگا۔
سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ گرین لائن بن گئی ہے، سرکلر ریلوے نہیں چل سکتی، سپریم کورٹ نے کہا کہ برسوں سے صرف میٹنگز چل رہی ہیں، کوئی حل نہیں نکالا گیا ابھی تک؟
چیف جسٹس نے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے پاس اب توہین عدالت کی کارروائی کا راستہ رہ گیا ہے، ابھی وزیراعلیٰ سندھ ،سیکرٹری ریلوے ، میئر اور کمشنر کراچی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں۔
کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سیکرٹری ریلوے کو ایکنک کے فیصلے کی کاپی لانے کے لیے آدھے گھنٹے کی مہلت دے دی ۔
فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے عدالت میں بتایا کہ 6500 لوگوں کو بے گھر کردیا گیا جبکہ بڑے بڑے پلازے نہیں گرائے جارہے۔
سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ آپ کو کس نے اختیار دیا تھا کہ جاکر قبضہ کریں، ریلوے لینڈ پر بڑی بڑی عمارتین بن گئی ہیں، جاکر گرائیں ،ایک ہفتے میں گرائیں ، اس پر کمشنر کراچی نے عدالت میں کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی سے کہا کہ آپ جاکر گرائیں سپریم کورٹ کا آرڈر ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ آمد کے موقع پر سعید غنی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ توہین عدالت کیس میں پیش ہوں گے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے تجاوزات کے خلاف آپریشن اور سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کیس میں متعلقہ اداروں سے تفصیلات طلب کر رکھی تھیں۔