• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے دوست اور شاعر گلزار نے لکھا ہے کہ ’’اگر ہم دونوں ملکوں کے ادیب نہیں مل سکتے تو ہمارے اوپر مقدمے ہی بنادو تاکہ پیشی کے وقت ہم مل تو سکیں‘‘۔ یہ ہے امن اور محبت کے خواہاں ہمارے امن پسند دوستوں کا نوحہ۔ اسی نوحے کو دوست جاوید اختر نے اپنی نظم میں بیان کیا ہے۔ میں نے بھی نظم لکھی ہے۔ یہی ہم دونوں کے تضادات ہیں، جن کا مسعود اشعر نے کہانیوں میں سوال کیا ہے۔ میں نے بار بار پوچھا ہے کہ ہم جو دوسرے ملکوں میں جاکر وطن کو یاد کرتے ہیں بھلا ہم کون سے وطن کو یاد کرتے ہیں۔ جہاں ہم پیدا ہوئے، پھر ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ پھر مغرب کی آسانیوں اور بچوں کی محبت میں کسی دوسرے ملک ہجرت تو کر گئے مگر ابھی وہ سارے محلے جہاں بچپن گلی ڈنڈا کھیلتے ہوئے گزارا۔ پھر ہوش سنبھالا تو پاکستان میں مختلف قومیتوں کو اپنی قومیت پر فخر کرتے ہوئے پایا۔ ہم ہی کیوں تھے جو پاکستان کا نام لیتے لیتے، دیکھ رہے تھے کہ بنگالی ہم سے نفرت کرتے ہوئے، الگ ہوکر خوش رہے۔ سندھیوں، پنجابیوں، بلوچوں اور پٹھانوں نے اپنی ثقافت پر فخر کرتے ہوئے، اردو زبان کو جو اُن کی مادری زبان نہیں تھی، قائداعظم کے کہنے پر اپنی زبان مانا، سمجھا اور بولنے لگے۔ اردو بولنے والوں نے بھی زحمت نہ کی کہ جس علاقے میں وہ آکر بسے ہیں، وہاں کی ثقافت اور زبان کو اپنا سمجھ سکیں۔ سیاسی شعبدہ بازوں نے اس فاصلے کو شعلہ فشاں کیا۔ یہ آگ اتنی بھڑکی کہ کلاشنکوف اور بوری بند لاشیں اتنی پھیلیں کہ لوگوں نے اپنی وکالت، ڈاکٹری اور بزنس چھوڑ کر ایک دفعہ پھر مع بال بچوں کے آسٹریلیا سے کینیڈا تک ہجرت اختیار کی۔ ہم دونوں ملکوں کو انگریز سے آزادی چاہئے تھی مگر ہم تو ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ نصاب میں بھی دونوں طرف یہی لکھا گیا کہ مسلمانوں نے ہندوئوں سے اور ہندوئوں نے مسلمانوں سے نفرتوں کی بنا پر آزادی حاصل کی اور پھر یہ نفرتوں کی زنبیل کھلتی چلی گئی۔ دیواریں اور اونچی ہوتی چلی گئیں۔ پاکستان میں اونچے پاجامے اور انڈیا میں گیروے رنگ کی دھوتیاں اور ماتھوں پر لکیریں نمایاں ہوتی گئیں۔ پھر بھی کیرالا سے بنگال تک سب غالبؔ اور فیضؔ کو پڑھتے گئے۔ آج بھی وہ فیضؔ کو اسی طرح پڑھ رہے ہیں جیسے بھگت سنگھ کو پھانسی چڑھانے کے بعد پورے برصغیر میں آواز گونجی تھی ’’سرکشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے؍ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘‘۔

دونوں آزاد ملکوں میں بازوئے قاتل نت نئے روپ میں ابھرتے گئے۔ پاکستان میں تو فلم ’’زندگی تماشا‘‘ کو بعض لوگوں نے انتہا پسندی میں رُلا دیا اور انڈیا میں اردو سے خوفزدہ حکمرانوں نے قانون سازی کرکے، ہر گھر میں مقبوضہ کشمیر کی طرح عورتوں اور مردوں سب کو سرکش بنا دیا۔ کمال یہ ہے کہ کشمیر کو یونین ٹیریٹری کہنے کے باوجود کشمیریوں سے ڈرے رہے۔ دنیا شور مچاتی رہی مگر دنیا کے شور کو اب کوئی قابلِ توجہ سمجھتا ہی نہیں۔ دونوں ملکوں میں جمہوریت، آمریت کی شکل میں من چاہے قانون کے تحت پابہ زنجیر کرتی رہی۔ تلقین کی گئی کہ اخبار مت پڑھو، ٹی وی مت دیکھو۔ دنیا میں چین ہی چین ہے۔ کیا ہوا، دو چار وزیر نکال دیئے جائیں۔ دو چار چیزوں کی قیمتیں بڑھنے سے کچھ سرمایہ دار فائدہ اٹھالیں۔ یہ وقتی بلبلے تو اٹھتے ہی رہتے ہیں۔ حکومتوں کو اپنے پانچ سال پورے کرنا ہوتے ہیں۔

مسعود اشعر کی کہانیاں یہ سوال بھی اٹھاتی ہیں کہ باہر کے ملکوں پر اگر آفت آئے، مثلاً کینیڈا میں مسجد جلا دی گئی تو یہودیوں نے اپنے عبادت خانے میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی دعوت دی اور باہر پہرہ بھی دیا۔ اسی طرح سکھوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہو یا ہندوئوں کے مندروں کو نقصان پہنچایا جائے تو مسلمان سمیت، سب فرقے ایک ہو جاتے ہیں۔ تو یہ انڈیا میں 22کروڑ مسلمانوں سے اتنا خوف کیوں ہے کہ لسانی قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں۔ شہروں اور سڑکوں کے نام بدلے جا رہے ہیں۔ آپ سوال اٹھا سکتے ہیں جیسے مسعود اشعر نے اپنے افسانوں میں اٹھائے ہیں کہ کیا سبب ہے کہ ساری دنیا رجعت پسندی کی جانب جا رہی ہے مگر مذہبیت کی جانب نہیں۔ اسکاٹش اور آئرش اپنی تہذیب کو انگریز تہذیب سے الگ شناخت کرنا چاہتے ہیں۔قطالونیہ کےلوگ اسپین سے الگ ثقافت مانگتے ہیں۔ اسلامی ممالک سنّی اور شیعہ کے مسئلے پر صدیوں سے لڑ لڑ کر مر رہے ہیں۔ آخر نوم چومسکی کو کون پڑھے گا کہ صحیح ہے کہ زمینی ثقافتیں آپ کی بنیاد ہوتی ہیں مگر علم اور عقل آپ کی ذہنی کیفیت میں نکھار پیدا کرتے ہیں اور آپ انسانیت کی وسیع سطحوں پر زندگی گزارنے کو صائب سمجھتے ہیں۔ انڈیا میں آج تک دلّت لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، اس کو کوئی ملک بھی تحسین کی نظر سے نہیں دیکھتا ہے۔ مسعود اشعر نے کہانیوں کے حوالے سے ہمارے اندر کی کمینگیوں کو جیسے آشکار کیا ہے، کہانیاں پڑھ کر، اس میں ملہار اور پرانے گیتوں کا تذکرہ، اچھا نہیں لگتا ہے۔ بالکل ایسے ’’تھیکلی‘‘ لگانے کو مسعود نے پیوند کہا ہے۔ ہمارے بڑے تو اسے ہتھیلی لگانے جیسا کہتے تھے۔ وہ تو گئے ہم جیسے بزرگ، پرانی یادوں سے قطعی آنکھیں بند کر لینا چاہتے ہیں۔ محبتیں نابود ہو جائیں تو سمجھائو گلزارؔ، ہم لوگ پیشی پر کیسے آئیں۔

تازہ ترین