کراچی (اسٹاف رپورٹر/آن لائن/ این این آئی/ صباح نیوز/آئی این پی)سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے (کےسی آر) کی بحالی کے حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیوں نا وزیر اعلیٰ سندھ اور سیکرٹری ریلوے کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیئے جائیں اور کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ ریلوے کی زمین پر قائم تمام چھوٹے بڑے پلازہ ایک ہفتے میں گرا دیں، ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنا سیاسی ایجنڈا لگتا ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بنچ نے سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی دائر درخواست کی سماعت کی۔ عدالت میں سیکرٹری ریلوے، کمشنر کراچی، میئر کراچی اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ سمیت دیگر حکام پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے 5ستمبر2019 کا عدالتی حکم نامہ پڑھ کا سنایا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں حکم نامہ پر کیا عمل درآمد کیا؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ یہ پراجیکٹ اب سی پیک میں شامل ہوچکا ہے، فریم ورک مکمل کرکے وفاقی حکومت کو تین بار بھیج چکے ہیں سندھ حکومت براہ راست چائنا کو نہیں بھیج سکتی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ سرکلر ریلوے کے 24 گیٹ ہیں اگر وہ کھولتے ہیں تو پورے شہر کا ٹریفک جام ہو جائے گا، سرکلر ریلوے سے صرف15 سے17 ہزار لوگ ہی سفر کرتے تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پورا شہر سرکلر ریلوے سے سفر کرتا تھا یہ موٹر سائیکل، یہ پرانی بسیں نہیں تھیں۔
اس موقع پر سیکرٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ ہم تاخیر نہیں کر رہے جو ذمہ داری ہے پوری کررہے ہیں ہم نے تو آزمائشی طور پر بھی سرکلر ریل چلانے کی پیشکش کی تھی۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے سے استفسار کیا کہ ٹرین چلانا آپ کی ذمہ داری ہے یا نہیں، تو سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ سرکلر ریلوے چلانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اب توہین عدالت کی کارروائی کا راستہ رہ گیا ہے معاملہ ایک دوسرے پر ڈالا جارہا ہے ۔