کراچی (اسٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے چائنا کٹنگ کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہاہےکہ مفاد پرستی میں شہر کا حشر کردیاہے افسران سوٹ بوٹ پہن کردفتروں میں بیٹھے رہتے ہیں باہر نکلنے کو تیار نہیں.
سڑکوں کا معائنہ تک نہیں کرتے صنعتی علاقوں کی حالت ابتر ہے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار،گرین بیلٹ بھی تباہ ہوگئےکوئی دیکھنے والا نہیں شہرکو لاوارث چھوڑ دیاہے کراچی کی اصل شکل میں بحالی اور تجاوزات کے خاتمے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی جس میں میئر کراچی، سیکریٹری بلدیات اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو آئین کا آرٹیکل 140 پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بتائیں شہر کو خوبصورت کیوں نہیں بناتے آپ لوگ؟جو کچھ آپ لوگ کررہے ہیں یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ میئر کی ذمہ داری ہے ہر سوال کا جواب دیں.
میئر کراچی کیوں جواب نہیں دیتے؟ آگے آئیں میئر صاحب آپ کی انتظامی ذمہ داری ہے۔ آپ لوگ سوٹ پہن کر دفتروں میں بیٹھے رہتے ہیں باہر نکلنے کو تیار نہیں، عدالت کے استفسار پر سیکرٹری بلدیات نے بتایا کہ یہ لوکل گورنمنٹ اور بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے، اختیارات نہ ہونے کا میئر کا دعویٰ درست نہیں، بلدیاتی اداروں کے پاس مکمل مالی اختیارات ہیں، کئی منصوبے ورلڈ بینک کے تعاون سے چل رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کی بات ٹھیک ہے تو ہم میئر کی ایک کہانی بھی نہیں سنیں گے، ان کو ایک گیت بھی گانے نہیں دیں گے، آپ لوگ سوٹ پہن کر دفتروں میں بیٹھے رہتے ہیں باہر نکلنے کو تیار نہیں، یہاں آکر کہانیاں سنا دیتے ہیں ورلڈ بینک فلاں بینک، بتائیں آخری دفعہ باہر کب نکلے تھے؟
کوئی روڈ دیکھا ہے آپ نے؟ آپ کسی کے لاڈلے ہوں گے، یہاں کسی کے لاڈلے نہیں، کبھی لیاری، منگھو پیر، پاک کالونی، لالو کھیت اور ناظم آباد گئے ہیں؟ یہ تو آرٹیکل 6کا کیس بنتا ہے آپ لوگ آئین توڑ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لوگوں کو کچھ ملا ؟سب کچھ تو آپ کی جیب میں چلا گیا، کراچی کا کوئی کام بھی ہو لوکل گورنمنٹ کے ذریعے ہونا چاہئے، آپ اور سب پاکستان کے لئے کام کررہے ہیں یہ آئین کی پابندی آپ کی ذمہ داری نہیں؟
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ وزیر اعلیٰ سے رپورٹ لے کر دیں کام کیوں نہیں ہورہا؟ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ اگر میئر سے کام نہیں لینا تو ان کو گھر بھیج دیں، انہیں کیوں رکھا ہوا ہے؟
کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے یہ کیوں ہونے دیا؟ یہ کوئی گاؤں نہیں ہے، کبھی کراچی پاکستان کا نگینہ ہوا کرتا تھا، آپ لوگوں نے مفاد پرستی میں شہر کا کیا حشر کردیا، یہاں بیوروکریٹ اس طرح باتیں نہیں کرتا کام کرتا ہے۔
اس موقع پر میئر کراچی وسیم اختر نے عدالت میں کہا کہ آپ نے سندھ حکومت کو متنازع معاملات پر میٹنگ کا حکم دیا تھا، متعدد یاد دہانی کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی، ہمیں 7 ارب روپے تنخواہوں اور پینشن کے ملتے ہیں۔
عدالت نے میئر کراچی سے سوال کیا کہ آپ نے سڑکیں بنائی ہیں؟ کہاں سڑک بنائی ہے؟ اس پر وسیم اختر نے جواب دیا کہ ناظم آباد میں چھوٹی گلیوں کی سڑکیں بنائی ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ناظم آباد میں کوئی چھوٹی گلیاں نہیں ہیں،
ریکارڈ پیش کریں، کتنی سڑکیں بنائی ہیں؟ ریکارڈ بعد میں، ابھی یہ بتائیں کیا کیا آپ نے شہر کے لئے؟
دورانِ سماعت ایک خاتون نے عدالت میں شکایت کی کہ اس کے گھر والی ایک ہی سڑک تین دفعہ توڑ کر بنادی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے شہر کے لوگ کہہ رہے ہیں کچھ نہیں بنا۔
میئر کراچی نے عدالت کو سڑکیں بنانے کا ریکارڈ پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں، آپ بعد میں لائیں ریکارڈ، ابھی بتائیں کیا کیا آپ نے شہر کے لئے؟
اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نےسیکرٹری بلدیات روشن شیخ سے استفسارکیا کہ لینڈکنورژن آپ لیتے ہیں تو لوکل گورنمنٹ کیا کرے جبکہ میئرکراچی پر بھی عدالت نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو 7 ارب روپے تنخواہوں کی مد میں ملتے ہیں تو کام کیا کرتے ہیں.
جس پر انہوں نے کہا کہ میرے پاس اختیارات ہی نہیں ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ کو معلوم تھا کہ میئر کراچی کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو الیکشن کیوں لڑا پھر ، عدالت نے سڑکوں کی تعمیرات سے متعلق ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔